اسرائیل نے ایک طرف غزہ میں ظلم، بربریت اورنسل کشی کا ایسا بازار گرم کررکھا ہے جس میں مقامی آبادی کیخلاف بھوک سمیت ہر ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے، دوسری جانب نتن یاہو حکومت کی طرف سے آنیوالے بیانات کی صورت میں نام نہاد عظیم تر اسرائیل قائم کرنے اور فلسطینیوں کوان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کےمذموم غاصبانہ عزائم کے اظہار کا سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیلی وزیر خزانہ بزلل سموٹرچ نے مقبوضہ مغربی کنارے کے متنازع علاقے ای ون میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے اس منصوبے پر عملدرآمد کا اعلان کیا ہے جو اسے مشرقی یروشلم سے کاٹنے اور فلسطینی مملکت کے تصور کو ختم کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ اسرائیل طویل عرصے سے مشرقی یروشلم کے ای ون کہلانے والے حساس حصے میں بستیاں تعمیر کرانے کا منصوبہ رکھتا ہے مگر مخالفانہ بین الاقوامی ردعمل کی بنا پر اس پر عمل سے گریزاں رہا ہے۔ تاہم اسرائیل کے موجودہ تیور ظاہر کررہے ہیں کہ وہ اپنا پرانا منصوبہ بروئے کار لانے پر بضد ہے۔پاکستان، اقوام متحدہ،اسلامی تعاون تنظیم سمیت بین الاقوامی تنظیموں نے درست نشاندہی کی ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے کے متنازع علاقے ای ون میں یہودی بستیوں کی تعمیروآبادی کاری کا منصوبہ دوریاستی حل کو ختم کردیگا۔ یہ منصوبہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس کے نئی بستیوں کی تعمیر روکنے کے مطالبے، او آئی سی کے عالمی برادری کے فوری نوٹس لینے اور پاکستان کے منظم جنگی جرم روکنے سے متعلق حالیہ بیانات متقاضی ہیں کہ اس باب میں عالمی برادری فوری طور پر حرکت میں آئے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی اصولوں او ر متعلقہ قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی روکنے کیلئے دنیا بھر کے انسانیت دوست حلقوں کی طرف سے طاقت ور ردعمل سامنے آئے۔اس باب میں سلامتی کونسل کا فوری اجلاس بلانا اس اعتبار سے اہم ہے کہ مسئلے کی حساسیت نمایاں ہوسکے۔