• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے امتزاج سے رابطے کی تیز ترین شکل وجود میں آئی۔ اس سے جہاں لوگوں کو رابطوں میں آسانی ہونے لگی وہیں کاروبار کے نئے نئے طریقے متعارف ہوئے۔ لوگوں نے جہاں اس سے فائدہ اٹھانا شروع کیا وہیں رابطے کے تیز ترین ذرائع کا استعمال ملک دشمنوں کے سہولت کاروں نے بھی کرنا شروع کر دیا۔ پہلے ریاست کو کمزور کرنیوالےعناصر اپنا شرپسندی پر مبنی پروپیگنڈا لوگوں تک پہنچانے کیلئے تگ و دو کرتے تھے پمفلٹس کے ذریعے لوگوں کو مختلف جماعتوں میں یا جلسوں میں اکٹھا کر کے اپنا پروپیگنڈا پہنچایا کرتے تھے نیشنل ٹی وی اور چینلز کے پلیٹ فارمز انکو میسر نہیں تھے لیکن سوشل میڈیا کے تیز ترین ذرائع ہر ایک کو بلاتخصیص میسر ہیں۔ یوٹیوب پر کوئی بھی شخص اپنا چینل بنا سکتا ہے اس میں کوئی پیسہ نہیں لگتا اور ان تیز ترین رابطوںکے ان پلیٹ فارمز سے پروپیگنڈا وسیع آڈینس تک باسہولت پہنچایا جا سکتا ہے،پہلے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ صرف پاکستان ہی کو ان چیلنجز کا سامنا نہیں بلکہ دنیا کے کئی ملکوں میں دشمن عناصرسوشل میڈیا پلیٹ فارم سے پروپیگنڈا مہم چلاتے ہیں اسی لئے سائبر کرائم اور ڈیجیٹل دہشت گردی کی اصطلاحات نکالی گئیں۔ فائر وال کا نام بھی آپ نے سن رکھا ہوگا یہ کسی ملک کی ریاستی سالمیت سے متصادم مواد پر چیک رکھنے کیلئے انٹرنیٹ ٹریفک اور صارفین کے درمیان نصب کی جاتی ہے۔ دنیا کے وہ ملک جنہوں نے اپنے ملک کی حدود کے اندر آنیوالی انٹرنیٹ ٹریفک پر ایک سیکورٹی چیک کے طور پر فائر وار انسٹال کی، چین ان میں سر فہرست ہے چین نے فائر وال کا نام اپنی گریٹ چائنہ وال کے طور پر ’’چائنہ گریٹ فائروال‘‘ رکھا ہے چین میں سوشل میڈیا کی مقبول ترین ایپس، فیس بک، ٹوئٹر ،واٹس ایپ پرپابندی ہے۔چین نے اپنی سوشل ایپس ڈیویلپ کی ہیں جو صرف چین میں استعمال ہوتی ہیں۔ ڈیجیٹل سرحدوں کی حفاظت ایک حساس معاملہ ہے دنیا کے کم و بیش ہر ملک میں اسکا اہتمام کیا جاتا ہے۔ پروپیگنڈا کا سب سے موثر میدان سوشل میڈیا ہی ہے۔اب تو جنگیں بھی سوشل میڈیا کے میدان میں لڑی جا رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر فیک نیوز اور ڈیپ فیک ویڈیوزکے ذریعے ایسا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے جو پاکستان کی قومی سلامتی پر اثر انداز ہورہا ہے یہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہےپاکستان اپنے اسٹرٹیجک محل وقوع کی وجہ سے انتہائی اہمیت کا حامل ملک ہے ۔ پاکستان کی سالمیت کے دشمن صرف پاکستان کی زمینی اور فضائی سرحدوں پر وار نہیں کرتے یا پاکستان کے گلی کوچوں میں دہشت گردی نہیں کرواتے بلکہ سائبر دہشت گردی کے ذریعے ملک کی نظریاتی سرحدوں پر بھی حملے کرتے ہیں۔ہم اسےآن لائن دہشت گردی کہہ سکتے ہیں۔ اسکے ذریعے پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو کمزور کیا جاتا ہے، لوگوں کو برین واش کرکے ریاست کیخلاف بھڑکا کر اپنا ہم نوا بنایا جاتا ہے۔ گزشتہ برس کئی ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی انٹرنیٹ ٹریفک کے راستے میں فائر وال نصب کی گئی جس کا مقصد ایسی پوسٹوں کو روکنا تھا جو پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کیخلاف کی گئیں یا کوئی بھی ایسی پوسٹ جو سیاسی مذہبی اور مسلکی بنیاد پر لوگوں میں انتشار پیدا کرے۔سائبر سکیورٹی کے حوالے سے دنیا کے ملکوں میں پاکستان کا 46 واں نمبر ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان میں سائبر کرائم کو روکنے کیلئے ابھی مزید موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان سائبر کرائم کے خطرے میں گھرا ہوا ملک ہے اس چیز کا اندازہ ان حقائق سے لگائیے۔ حال ہی میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اور سائبر کرائم انوسٹی گیٹو ایجنسی نے مل کرسائبر کرائم اور آن لائن دہشت گردی کی روک تھام کیلئے باریک بینی سے چھان بین کی توآٹھ سو سے زائد اکاؤنٹس ایسے تھے جہاں سے پاکستان کی سالمیت کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا، ان میں پانچ سو تینتیس اکائونٹ بلاک کر دیے گئے یہ ساڑھے آٹھ سو اکاؤنٹ پاکستان تحریک طالبان ،بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ کے پیروکار پاکستان میں بد امنی پھیلانے کیلئے استعمال کر رہے تھے۔ یہ اکاؤنٹ پاکستان کیخلاف زہریلے مواد کو شیئر کرنے پاکستان کی سالمیت اور ریاست کیخلاف پروپیگنڈا کرنے میں ملوث تھے۔ان اکاؤنٹس کی ریچ لاکھوں میں تھی۔ ان میں سے بیشتر اکاؤنٹس پاکستان کے باہر سے آپریٹ کیے جاتے ہیں انہیں بند کرنا اتنا آسان نہیں تھا اس حوالے سے پاکستان نےان ممالک سے استدعا کی کہ آن لائن دہشت گردی کی روک تھام کیلئے پاکستان کا ساتھ دیں۔ چونکہ یہ بین الاقوامی سوشل میڈیا کے رابطہ پلیٹ فارم ہیں تو بین الاقوامی کمپنیز کو انوالو کیے بغیر پاکستان میں ان پہ پابندی نہیں لگائی جا سکتی یا انکو محدود یا مسدود نہیں کیا جا سکتا ۔فیس بک اور ٹک ٹاک کے حکام سے جب بات چیت ہوئی تو ان سے 90 فیصد تعاون حاصل ہوا ٹیلی گرام چونکہ پاکستان میں بہت کم استعمال ہوتا ہے اس کے باوجود ٹیلی گرام کی ایپس لوگوں نے ڈاؤن لوڈ کی ہوئی ہیں۔اس حوالے سے عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ ٹیلیگرام کو ڈیٹیکٹ نہیں کیا جا سکتا۔ٹیلی گرام سے ایسے اکاؤنٹس کو بلاک کرنے کیلئے گورنمنٹ کو ٹیلی گرام کی اتھارٹیز سے بات کرنا پڑی ان کا تعاون بہتر رہا اسکے برعکس ٹوئٹر اور واٹس ایپ کی جانب سے تعاون میں کچھ کمی رہی۔دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت کی الگورتھم کو مشکوک اور قابل اعتراض مواد کو روکنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے اور یہی ٹیکنالوجی پاکستان بھی استعمال کرنے جا رہا ہے۔بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کا سانحہ جس منظم طریقے سے کیا گیا اس میں بھی سوشل میڈیا کا کردار بہت اہم تھا۔دہشت گرد سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے سہولت کاروں کے ساتھ منسلک تھے۔آن لائن دہشت گردی کے اس دور میں پاکستان کی ڈیجیٹل سرحدوںکی حفاظت بھی ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ ڈیجیٹل پلیٹ فارم سے دہشت گرد باآسانی لاکھوں ذہنوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں ڈیجیٹل سرحدوں پر بند باندھنا ضروری ہے ۔

تازہ ترین