ممکن ہے ماضی میں راوی من پسند روایتوں کو جنم دیتا ہو اور خواہشوں و حسرتوں کی’’تاریخ‘‘ کو کسی مؤرخ سے قلم بند بھی کرا لیتا ہو۔ لیکن اُن ادوار میں بھی ایک سوچ مختلف جگہوں پر مختلف لوگوں میں تلملاتی ہوگی یا جنم لیتی ہو گی ، اور اوراق پر کندہ ہونے کے بعد کبھی نہ کبھی چھان بین والی نظروں سے بھی گزرتی توہو گی۔اسی لئے تو کہیں اتفاق اور کہیں اجتہاد کو راستے ملے اور ڈائیلاگ کی اپنی بازگشت بھی فضاؤں کا حصہ بنی رہی۔ احادیث تک کی اشاعت اور کمیونیکیشن کے خالص پن کو برقرار رکھنے کیلئے محدثین اور محققین کو عرق ریزیوں سے کام لینا پڑا۔ گویا سچ کی تلاش اور دھوکے کی تراش نے انسانوں کے جنم کیساتھ ہی اپنی اپنی پیدائش پا لی تھی ! یہاں کہنا یہ مقصود ہے اس جدید دور میں جسے آرٹیفیشل انٹلیجنس کا زمانہ قرار دیا جاتا ہے اس میں مغالطے تو ممکن ہیں لیکن جھوٹ کو پردوں میں چھپا کر ’’میک اپ‘‘ کی تہہ تلے دبا کر رکھنا ممکن نہیں۔ زمانہ کوئی بھی ہو وقت کو انسانیت ، افادیت اور مساوات و احساسات کی تلاش رہتی ہے۔ جو سیاسی، سماجی، انتظامی یا منصفی کی مسند پر بیٹھ کر کم از کم ان دنوں یہ سوچ رہے ہیں کہ سلیقےکے ساتھ اپنا فعل سر انجام دے رہے ہیں، اور انکے غلط کئے دھرے کو اول تو جانچنا مشکل ہے، دوم مستقبل میں بھی یہ چھپا رہے گا، وہ جدید دنیا کی احمقوں کی جدید جنت کے باسی ہیں، اور یہ چند دن ہیں ،بس رہ جانے والی تاریخ ہی ہو گی جو انکی اچھی بری تحریک کا بھیانک یا دلکش چہرہ بن کر ڈیجیٹلائزڈ شکل میں یہی کہیں ہو گی ’’زندہ جاوید‘‘ ۔ سو اب احتیاط پہلا قرینہ ہوگا جدتوں کی امین فضا کی کلا کاریوں کا !
معیشت کی گتھیاں اس وقت تک سلجھ نہیں سکتیں جب تک معاشرت میںتوازن اور اعتماد کی صورت گر ی نہ ہو۔ ایسے ہی داخلیت کا میٹھا پھل خارجیت کا دیرپا ذائقہ ہوتاہے۔ دونوں کا ساتھ لازم و ملزوم ہے۔ لیکن عالم یہ ہے کہ قول و فعل کے تضاد کا بحر بیکراں جب ایوانوں اور بالا خانوں سے بہتا ہوا دانش گاہوں، عدالتوں اور انتظامی مجالس میں پہنچ کر نیشنلٹی حاصل کر لے تو نیشن میں بگاڑ کی شدت اور بناؤ کی قلت کو کوئی عارضی علاج نہیں روک سکتا ۔ اصلاحات ہی وہ واحد حل رہ جاتا ہے جس سے مستقبل کے حُسن اور احسن نتائج کے حصول کو بچایا جا سکتا ہے۔ مگر افسوس سن 71ءکے دلخراش واقعات کے اسباق اور 10؍مئی 2025ء کے تشکر کے لمحات سے بالا خانے اور اقتداری و اقتصادی بالکونیاں کچھ سیکھنے کے موڈ میں نہیں اب تو مقننہ والے بھی محض تمغوں کے ’’وصولٔ‘‘ کے موڈ میں ہیں۔ بہرحال اللہ اعزازات مبارک کرے اور احساسات کو جنم دے! اعزازات اور احساسات کا منکوحہ معاملہ ہی اچھی جنریشن کا موجب ہوتا ہے!
اجی ہم جنگ جیتے تو بلاشبہ قوم کو اعتماد ملا اور سائنس و ٹیکنالوجی کی اہمیت کے ساتھ عسکری حقیقت سے محبت اور عقیدت کو بھی چار چاند لگے۔ اس کے فوراً بعد آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کو بھی ہماری وفا اور جفا کا احساس ہوا انہوں نے علانیہ حوصلہ افزائی اور عملی ہمت افزائی کو رواج بھی بخشا۔ خارجی امور میں دشمن سے دس گنا زیادہ پذیرائی بھی ہمارے حصے میں آئی ۔ دشمن کی سالوں کی محنت ، عرصہ دراز کی سرمایہ کاری اور تھنک ٹینکس کی پورے عالم میں بچھی بساط کو شدید دھچکا لگا۔ را کی افغانستان اور ایران میں خفیہ صف بندیوں کو منہ کی کھانا پڑی جو ان علاقوں میں بیٹھ کر پاکستان کو کمزور کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی تھیں...لیکن اہلِ نظر دشمن کی سفاکی اور غیر اخلاقی تاریخ کو نہیں بھولے تھے، اور انہوں نے آگاہ کردیا تھا کہ پاک سر زمین کے کچھ حساس گوشوں میں بارود اور فساد کو پھیلایا جائے گا۔ سیندور چاٹنے کے بعد مودی کاوش کسی مہا دیو آپریشن کے ایڈونچر کا سوچ رہی ہے۔ لیکن مہا سے بھی نپٹ لیا جائے اور دیو سے بھی مگر ان حالات میں مہا دیو کے سنگ سنگ چھوٹی چھوٹی دیویوں کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا جن کیلئے دیدہ دلیریوں کی ضرورت رہے گی۔ واضح رہے کہ جعفر ایکسپریس کو پھر سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ تو شکر ہے بڑا نقصان نہیں ہوا لیکن بڑا خدشہ از سرِ نو ضرور پیدا ہو گیا ہے۔ تقریباً پانچ ماہ قبل بھی جعفر ایکسپریس نشانہ پر آئی تھی ، اور اس وقت بھی بی ایل اے نے ہائی جیکنگ والا حربہ ہی استعمال کیا تھا۔ 11 مارچ سے تاحال جعفر ایکسپریس پر بی ایل اے کا حملہ اور بی ایل اے کے پیچھے کار فرما دہشت گرد سے قوم آشنا ہے، اور ان سے بھی جو خارجیوں کے ایما پر داخلہ صورت حال کو خراب کرنے کے درپے ہیں۔ لہٰذا سوشل جسٹس اور عام غریب آدمی کو بلوچستان میں فی الفور فراہم کردہ جسٹس ہی دہشت گردی اور دشمن کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں معاون ہوگا، اور یہی لیگل اسٹینڈرڈ کراچی سے خیبر اور پاک سر زمین کے ہر کوچہ و بازار کو درکار ہے کہ دس مئی کی فتح کا جشن ہر طبقے اور شہری کی حفاظت اور سلامتی کیلئے ثمربار رہے۔ وہ لوگ جو پاک وطن کے خلاف کسی بیرونی ہاتھ کے سبب ہیں انہیں اعتماد میں لینا ریاست ہی کاکام ہے۔ داخلی انتشار کسی کونے کا بھی ہو وہ خارجی کامیابیوں کو سبوتاژ کر دیتا ہے۔ نظریہ ضرورت کے تحت کئے گئے کام ماضی کے ہوں یا حال کے ان سے عارضی فائدہ تو ہوسکتا ہے پائیدار حل نہیں۔اگر لیگل اسٹینڈرڈ کا احساس اور وجود نہ ہو تو متعدد سی سی ڈی، سینکڑوں ایف آئی اے اور بیسیوں اسپیشل فورسز مخمل میں ٹاٹ کے پیوند ہو کر سوراخ تو بند کر سکتے ہیں خوش اسلوبی اور خوشنما نہیں ہو سکتے۔ ایک مکمل اور پائیدار جسٹس اس قوم کے ہرفرد کو درکار ہے۔ جو اپوزیشن میں رہ کر انصاف مانگتے اور پکارتے ہیں وہی اقتدار میں آکر انصاف کے آگے بند باندھتے ہیں ، اور یہ سن سینتالیس سے ہے۔
پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کی بالغ نظری اور بانی پی ٹی آئی کی حقیقی اور غیر جذباتی سیاست کی قومی حمیت،قومی حکمت اور اصلاحات کو اتنی ہی ضرورت ہے جتنی لیگل اسٹینڈرڈ کی ، کہ یہ سب لازم و ملزوم ہیں ، جناب !