• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز کا سفر ہمیشہ سے ’’معرکہِ حق و باطل‘‘ کی گرفت میں رہا ہے ۔ نہیں معلوم ! میں پہلے سیاسی متحرک بنا اور بعد ازاں شعور نے آنکھ کھولی یا شعور پہلے آیا اور سیاسی سرگرمیاں بعد میں شروع کیں؟ جب سے ملکی سیاست میں ملوث ، تب سے اسے’’ معرکہِ حق و باطل‘‘ سمجھا ۔ سر تا پا نظریاتی اورجہادی رہا ، اپنے نظریے کوہی صرف حق جانا ۔ جمعیت کے ساتھی جناب لیاقت بلوچ، جناب احسان اللہ وقاص وغیرہ گواہ کہ جان ہتھیلی پر رکھ کرا سٹوڈنٹ ایکٹیوسٹ رہا ۔ اس کیفیت میں اپنے آپکو اندھا اور یک رُخا پایا ۔ مملکت زمانہ قدیم سے نام نہاد اسلام اور کفر کی جنگ میں ملوث ، انتہا پسندانہ کیفیت سے نبردآزما آج بھی شدت سے جکڑی ہے ۔

جنرل ایوب خان رخصت ہوا تو بمشکل سترہ سال کا ہونگا، بھٹو صاحب کا آغاز و عروج ، میرے نظریے کا آغاز و عروج بھی تھا ۔ جدوجہد کہ مملکت اسلامی رنگ اپنائے ناکہ فاشسٹ ، مطلق العنان ، سوشلسٹ ریاست بن جائے۔ عظیم المرتبت مولانا مودودی کی براہِ راست رہنمائی میسر رہی ، اپنے نظریے کے راسخ ہونے پر یقین اور ایمان تھا ۔ مولانا مودودی کا قانونی ، سلامتی ، امن کا راستہ میرے انتہاپسند مزاج سے مختلف ، چنانچہ مجھے مولانا کی امن و سلامتی کی سوچ ایک آنکھ نہ بھاتی تھی ۔ اپنے طور بھٹو صاحب کو ایک’’بُرائی‘‘ گردانتا تھا اور اسکے خلاف ہر قدم کو جہادِ اکبر سمجھتا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے جب بھٹو کے آمرانہ نظام کا خاتمہ کیا تو بھٹو مخالف دایاں بازو جم کر مردِ مومن جنرل ضیاء کیساتھ کھڑا ، حق کا علمبردار بن گیا۔ دوسری طرف بھٹو سیاست بھی جہاد شروع کر چکی تھی ۔ جنرل ضیاء الحق کے دور کے بعد کم و بیش اگلے 30 سال نظریاتی موشگافیوں سے چھٹکارا ضرور ملا مگر’’گھس بیٹھیے مالک مکان‘‘مزید طاقتور ہو گئے ۔ حق اور باطل کی جنگ سے چھٹکارا ملا اور جس سیاسی جماعت پر نظرِ التفات ٹھہری وہی سیاسی دلہن بنی ۔ 2018 ءکا بدقسمت سال جب ’’مالک مکان‘‘ نے مکمل قبضہ کی ٹھانی ۔ ایک ہیرا ڈھونڈا اور تراش خراش کی ۔ معلوم نہ تھا ’’ہم نے شوق گُل بوسی میں کانٹوں پہ زُباں رکھ دی‘‘۔

جنرل باجوہ ، جنرل فیض حمید اور جنرل آصف غفور اور دیگر کی باڈی لینگویج ، تبسم ، کھلکھلاتے چہرے، یوں لگتا تھا ’’ پالیا ! پالیا ‘‘ کی دائمی کیفیت طاری ہو چکی ہے ، ہیرا سنبھالے سنبھالا نہیں جارہا ۔ قریبی حلقوں میں ہمیشہ اور ایک دو موقع پر’ان‘ کے گوش گزار کیا کہ’’ وقت آنے پر ہیرا آپ سب کو تگنی کا ناچ نچوائے گا ‘‘۔ بندے کی چند خصوصیات آزمودہ ، لامحدود اور تسلیم شدہ تھیں ۔ آج زمانہ قدردان اور باقی جو بچے معترف ہیں ۔ اندھا دلیر ہے ،کسی بھی لڑائی اور مقابلہ کے فن میں اپنی مثال آپ ہے ، ہر قسم کے نامساعد حالات ، قید و بند ، سختیاں ، سردی گرمی سے بےپروا ، مخالفین کو حیران کر دئیگا، ابلاغ عامہ کے استعمال میں ایسا ہنرمند جو پہلے نہ دیکھا تھا کہ آج اپنی دنیا پیدا کر چکا ہے۔ قریہ قریہ بستی بستی شہر شہر ملکوں ملکوں بذریعہ سوشل میڈیا اپنا پیغام عام کر رہا ہے۔ مخالفین پریشان ، ہلکان ہیں ۔

معرکہ حق و باطل پھر سے شروع ، حق پر کون اور باطل کون؟ایک طرف منظم طاقت اور دوسری طرف غیرمنظم بکھری قوت جو ایسی چنگاری،کسی بھی وقت شعلہ جوالہ بننے کی صلاحیت سے مالا مال ہے ۔ قوموں کی زندگی میں ایسی چنگاریاں بڑے حادثات کا موجب بنتی ہیں ، بعد ازاں اختیار و اقتدار مالک کے کام کا اور نہ ہی مکان قابلِ استعمال رہتا ہے ۔

بدقسمتی کہ آج پھر سے حق و باطل کی کج بحثی میں الجھ چکے ہیں ۔ریاست پر کیسا کڑا وقت کہ سب فریق اپنے تخیلاتی فریب و سراب خود فریبی کی گرفت میں ہیں ۔ مملکت ، طاقتور ریاست ، حکومت ، ادارے ،ا پوزیشن ، عوام سب بند گلی میں پھنس چکے ہیں ۔ عمران کو سہولت کہ ملکی سیاسی تاریخ کے تناظر میں اپنا راستہ متعین کر چکا ہے ۔’’اقتدار اور سیاست میں واپسی کے سارے راستے بند سمجھتا ہے‘‘ ۔ پچھلے ساڑھے تین سال کی جدوجہد کا محور محض طاقتور ریاست پر دباؤ بڑھانا تاکہ ملکی نظام کو مفلوج رکھ سکے ، مقتدرہ کا چین سکون برباد کردے ۔ نہیں معلوم ! کس حد تک کامیاب ہے؟ بات حتمی اور عمران خان کو کماحقہ جانکاری کہ اسٹیبلشمنٹ اگلے 20 سال اقتدار سے باہر رکھنے کا عزم بالجزم کر چکی ہے ۔ 70 سال سے بات مسلمہ کہ تبدیلیِ کمانڈ سے سابقہ کا بوجھ ، موجودہ نے نہیں اٹھانا اور نہ ہی کسی آنیوالے نے آج والے کا بوجھ اٹھانا ہے ۔ عمران کو ازبرہے کہ انکے بارے پالیسی کا تسلسل برقرار رہیگا ۔ ن لیگی قیادت کو یہی بتایا تھا کہ جنرل راحیل ریٹائر ہو جائیگا مگر آپ لوگ جو بھی تعینات کریں گے وہ وہیں سے شروع کریگا جہاں جنرل راحیل چھوڑ کر جائیگا ۔ یہی سبق 27اکتوبر 2022ءمیں دو جرنیلوں نے اپنی پریس کانفرنس میں ہمیں من و عن ازبر کروایا تھا ۔ سبق آموز ، نواز شریف آج بھی کھڈے لائن ، سیاست سے باہر ہیں ۔

عمران خان کو فیلڈ مارشل نے نہیں ، جنرل باجوہ نے نکالا تھا ۔ جو کچھ بیتی ہے ، تسلسل ہے اور آئندہ کئی سال تک موجودہ اسٹیٹس نے بحال رہنا ہے ۔ عمران خان کا گیم پلان بھی مضبوط کہ ریاست ، مقتدرہ کیلئے ناقابل استعمال رہے ۔ جو سو فیصد ناکام رہیگا ۔ کیونکہ’’ مالک مکان‘‘کے ستارے بھی عروج پر ہیں جبکہ آنیوالوں نے آمناَ و صدقناَ پیروی کرنی ہے ۔ ہچکولے کھاتی ریاست قائم دائم رہے گی جبکہ عمران خان کی مشکلات بھی تاحدنگاہ برقرار رہیں گی ۔

تازہ ترین