جدید آرٹ کے دو معروف استعاروں کا ذکر چلے۔ ناروے کے مصور ایڈورڈ مونخ نے 1893ء میں ’چیخ‘ کے عنوان سے ایک تصویر بنائی تھی جسے جدید انسان کی بے چینی، تنہائی اور اندیشوں کا اساطیری اظہار سمجھا جاتا ہے۔ اطالوی ہدایت کار Bernardo Bertolucci کی 1972ء میں بنائی فلم Last Tango in Paris کا پہلا منظر تو ہمارے ذہنوں پر نقش ہے۔ خالی ڈھنڈار پل سے گزرتا پال (مارلن برانڈو) اچانک چیخ مارتا ہے اور یہ موٹی گالی بکتا ہے۔ یہ چیخ اس کردار کی داخلی کشمکش اور ذہنی الجھنوں کی عکاس ہے۔ ایڈورڈ مونخ اور مارلن برانڈو کی چیخ میں محض پون صدی کا وقفہ نہیں، یہ نئی دنیا کی تاریخ ہے جس میں انسانوں نے دو عالمی جنگیں دیکھیں۔ فاشزم کا تجربہ کیا۔ قومی آزادی کی تحریکوں کو مقامی زور آوری کی دھند میں غائب ہوتے دیکھا۔ اشتراکی جبر اور میکارتھی ازم کے جنون سے گزرے۔ ایٹم بم کی تباہی دیکھی۔ چاند پر پائوں رکھا۔ ہری بھری بستیاں کنکریٹ کے جنگلوں میں بدلتی دیکھیں۔ 19ویں صدی کی سائنسی سادہ لوحی کو اضافیت کے غبار اور امن کے خواب کو سرد جنگ کے تشنج میں مبتلا دیکھا۔ سرمائے اور محرومی میں بڑھتا فاصلہ دیکھا۔ آزادی کے آدرش کو اجنبی ریاست کی فصیل میں محصور پایا۔ غنچہ پھر لگا کھلنے، آج ہم نے اپنا دل / خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا۔
خرد افروزی کے معلم روسو نے 1762ء میں اپنی کتاب Social Contract کا آغاز اس جملے سے کیا۔ ’انسان آزاد پیدا ہوا لیکن ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہے‘۔ کارل مارکس نے 1848ء میں کمیونسٹ منشور کا اختتام اس جملے پر کیا۔ ’دنیا بھر کے محنت کشو متحد ہو جائو۔ تمہارے پاس کھونے کے لیے زنجیروں کے سوا کچھ نہیں‘۔ روسو اور کارل مارکس نے جن زنجیروں کی نشان دہی کی، وہی موضوع سخن ہیں۔ درویش نے استاد سے دریافت کیا کہ ’یا حضرت مارچ 1971ء سے دسمبر تک مشرقی پاکستان پر گزرنے والی قیامت سے آپ کتنے آگاہ تھے‘۔ فرمایا ’بالکل بے خبر تھے‘۔ ودیارتھی نے اگلا سوال کیا، ’اس سانحے کو فراموش کرنے میں قوم کو کتنا وقت لگا؟‘ استاد محترم نے فرمایا۔ ’بھولنے میں اس سے بھی کم وقت لگا‘۔ اگلا سوال تھا۔ ’بھول گئے یا بھلایا گیا؟‘۔ کچھ تامل سے فرمایا۔ ’بھلایا گیا‘۔ اس مکالمے سے معلوم ہوا کہ ریاست شہری کو بے خبر رکھتی ہے اور حادثے کے بعد فراموشی کی مہم چلاتی ہے۔ ہر دو صورتوں میں حتمی مقصد یہ کہ بے چہرہ فیصلہ سازی میں غلطی کی ذمہ داری کا تعین نہ ہو سکے۔ جون 2014ء میں ’ضرب عضب‘ شروع ہوا تو ہمارے ستر ہزار شہری اور ان گنت فوجی جوان شہید ہو چکے تھے۔ آج کتنوں کو یاد ہے کہ اسلام آباد میں ایف ایٹ کچہری، میریٹ ہوٹل، لاہور میں ہائیکورٹ چوک، ایف آئی اے دفتر اور مناواں میں پولیس کی تربیت گاہ پر کب حملے ہوئے اور ان میں کتنا جانی نقصان ہوا۔ درگئی میں تربیت پانے والے درجنوں نونہال کب مارے گئے۔
پارہ چنار میں خون کی ہولی کب کھیلی گئی۔ کراچی اور پشاور میں کب آگ اور خون کی ارزانی ہوئی۔ کوئٹہ کے قریب ایک تہائی وکیل کس دہشت گرد حملے کی نذر ہوئے۔ اشارہ عرض کرتا ہوں کہ 2مئی 2011ء کے بعد ہفتہ بھر خاموشی طاری رہی اور پھر غلغلہ ہوا کہ ہماری قومی خودمختاری کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ 1932ء میں اسٹالن بھی نہیں چاہتا تھا کہ سوویت شہریوں کو یوکرین میں قحط کی خبر ہو۔ 1962ء میں مائوزے تنگ کی خواہش بھی یہی تھی کہ معلوم انسانی تاریخ کے بدترین قحط کی خبر نہ نکلے۔ کسی کو یاد ہے کہ جارج بش سینئر نے لاطینی امریکا میں آمریتوں کی مدد کا اعتراف کب کیا تھا؟ فیصلہ سازی میں غلطی کا سادہ علاج یہ ہے کہ رابطے کاٹ دیے جائیں اور کوئی نیا تماشا شروع کر کے توجہ بٹائی جائے۔ کیا ہمارے ملک میں تحقیق ہوئی کہ تیس برس تک ملک کے سب سے ترقی یافتہ، تعلیم یافتہ اور مہذب شہر کو قتل و غارت، جرائم اور خوف کی کچی بستی میں کس نے تبدیل کیا؟ عوام کو تعلیم اور شعور سے محروم رکھنا سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔ ذمہ دار اہلکار نے تردید کر دی یا خوشخبری دے دی، ہر دو صورتوں میں امید جاگ اٹھتی ہے اور اندیشے دم توڑ دیتے ہیں۔ اسی سے منسلک بیانیہ یہ ہے کہ قوم کو داخلی اور بیرونی دشمنوں سے سخت خطرہ ہے۔ زار روس کا فوجی افسر جن لفظوں میں پسپا ہونے والے فوجیوں کو مائوں بہنوں کی عصمت کا واسطہ دیتا تھا، لاہور کے ٹائون ہال میں ایوب خان نے ٹھیک انہی لفظوں میں مولانا صلاح الدین احمد کی تادیب کی تھی۔ دنیا بھر میں انسان اپنی زمین، زبان اور ثقافت سے محبت کرتے ہیں اور اچھے دنوں کی امید پر زندہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ خطرات کی نشاندہی کرنے والوں کو اس عمومی نفسیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ’مایوسی پھیلانے والے کیڑے مکوڑے‘ قرار دیا جاتا ہے۔ چیخوف نے لکھا تھا کہ ’محبت، احترام اور رواداری کا درس دینا مشکل ہے۔ عوام کو کسی مفروضہ خیال یا گروہ سے نفرت دلانا کہیں زیادہ موثر حربہ ہے‘۔ مشکل یہ ہے کہ جب بے خبری کے اندھیرے میں سانحے کا طوفان آ لیتا ہے تو ایڈورڈ مونخ کی چیخ بلند ہوتی ہے اور مارلن برانڈو کی گالی ایک بے معنی آوازے کی طرح ہوا میں منتشر ہو جاتی ہے۔ 2009ء میں اسلام آباد کی ایک بوڑھی خاتون کی تصویر اشاعت کے لیے موصول ہوئی تھی جو قطار میں کھڑی رہی مگر آٹا نہ ملنے پر واپس جاتے ہوئے اس کے چہرے پر پھیلی جھریوں میں نمکین آنسو بہہ رہے تھے۔ اسی برس سوات میں بے گھر ہونے والی ایک بزرگ خاتون کی تصویر بھی حافظے پر نقش ہے جو کھٹارا گاڑی میں کسی نامعلوم مقام کی طرف رخصت ہوتے ہوئے آنسو بھری آنکھوں سے اپنے گھر کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ریاست بے چہرہ ہوتی ہے۔ اسے شہریوں کی آنکھ میں نمی اور لہجے میں محرومی کا احساس نہیں ہوتا۔ اس کا ایک ہی علاج ہے کہ فیصلہ سازی اور نتائج کی ذمہ داری میں شہریوں کو شریک کیا جائے۔ جمہوریت دکھوں کی سانجھ اور سکھ کے گائوں کی طرف مل کر سفر کرنے کا نام ہے۔