نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار کے دو روزہ دورۂ بنگلہ دیش نےدونوں اسلامی ملکوں ، جو کبھی ایک تھے ،اور دونوں کے دکھ سکھ بھی مشترک تھے ،کے درمیان پرانے برادرانہ تعلقات بحال کرنے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں نتیجہ خیز تعاون بڑھانےکی کافی حد تک نئی راہیں کھول دی ہیں جن پر چل کروہ قومی سلامتی اور ترقی و خوشحالی کی منزلیں طے کر کے اپنا مستقبل تا بناک بنا سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ سفر کا آغاز ہے مگر منزل تک پہنچنے کےلئے پہلا قدم ہی کامیابی کی اصل راہ دکھاتا ہے۔ وزیر خارجہ کی بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس، مشیر خارجہ محمد توحید حسین ،وزیر تجارت ایس کے بشیر الدین اور سرکاری حکام سے حکومتی سطح کی ملاقاتیں اور بات چیت دونوں ملکوں کے مفادمیں باہمی تعاون کے6معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں کی صورت میں سامنے آئی ہیں جن پر عملدر آمد سے مستقبل میں ایک دوسرے کے ساتھ چل کر وہ مزید کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں۔ غیر سرکاری سطح پر اسحاق ڈار کی سابق وزیراعظم اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ بیگم خالدہ ضیا ءاور جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمٰن سے ملاقاتیں بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں ۔اسحاق ڈار کا یہ دورہ 13 سال کے طویل عرصہ کے بعد کسی پاکستانی حکومتی شخصیت کا پہلا دورہ تھا جس میں تجارتی و اقتصادی تعاون بڑھانے، تعلیمی اور ثقافتی وفود کے تبادلے اور علاقائی و بین الاقوامی معاملات میں ہم آہنگی پر بھی غور کیا گیا ۔ یہ عہد کیا گیاکہ پیچھے دیکھنے کی بجائے آگے بڑھناچاہئے۔ جن معاہدوں اور مفاہمتی یاد داشتوں پر دستخط کئے گئے ان میں جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم کو متحرک کرنا بھی شامل ہے۔ دونوں ملکوں میں جہاز رانی اور فضائی سروس جلد بحال کرنے پر اتفاق ہوا۔ یہ بھی طے پایا کہ سرکاری اور سفارتی پاسپورٹ رکھنے والوں کےلئے ویزا کی شرط ختم کردی جائے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان طلبا کیلئے نالج کو ریڈور شروع کرنے فیصلہ کیا گیا۔ اسی حوالے سےپاکستان بنگلہ دیشی طلبا کیلئے 5 سال میں پانچ سو اسکالر شپ جاری کرے گا۔ ان میں سے ایک چوتھائی اسکالر شپ طب کے شعبے کیلئے مخصوص ہوں گے۔ باہمی تجارت بڑھانے کےلئے مشترکہ ورکنگ گروپ قائم کرنے پر بھی اتفاق ہوا۔ دونوں ملکوں میں تجارتی تعاون کےامکانات وسیع ہیں جن سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ مذاکرات میں کچھ اختلافی موضوعات بھی زیر بحث آئے جو بنگلہ دیش کے مطابق حل طلب ہیں جبکہ پاکستان کے نزدیک انہیں 1974ء اور اسکے بعد 2002ء میں حل کیا جاچکا ہے تاہم اس بحث کو موخر کر دیا گیا اور ماضی کو بھلا کر مستقبل کے بارے میں سوچ بچار کو ترجیح دی گئی جو دونوں قوموں کے مفاد میں ہے۔ اسحاق ڈار نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں ملکوں کا مستقبل روشن کرنے کے لئے عوام کے ساتھ مل کام کرنا چاہئے۔ بنگلہ دیش کے عبوری سربراہ پروفیسر محمد یونس نے بھی ان سے اتفاق کیا ۔ دونوں رہنمائوں کی گفتگو زیادہ تر پرانےتعلقات کی بحالی پر ہوئی جو باہمی مذاکرات کے مثبت پہلو کی غماز ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش درحقیقت اپنے پڑوسی ملک بھارت کی سازشوں کا شکار رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔ بنگلہ دیش کو اس کا احساس دیر سے ہوا مگر درست ہوا۔ پاکستان اوربنگلہ دیش اخوت کے مذہبی اور ثقافتی رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں اور ان کا مفاد ومستقبل خطے کے امن و استحکام سے جڑا ہوا ہے۔دونوں ملکوں کی قیادت کو چاہئے کہ باہمی رابطوں کو مضبوط بنائیں اور بیرونی خطرات کے مقابلے کےلئے اسٹرٹیجک تعلقات تشکیل دے کر اپنے ملک اور قوم کو محفوظ و مامون بنائیں۔