صہیونی وزیر اعظم نیتن یاہو کی جانب سے ماہ رواں کے اوائل میں گریٹر اسرائیل منصوبے کو آگے بڑھانے کے عزم کا برملا اظہار، جس کے مطابق متعدد عرب ریاستوں کے بڑے حصوںکو بزور قوت اسرائیل میں شامل کیا جانا ہے، دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر شدید مذمت اور اسلامی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کے خصوصی اجلاس کا سبب بنا۔پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے گزشتہ روز اجلاس سے اپنے مدلل اور دبنگ خطاب کے ذریعے سے پاکستان سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کی۔ انہوں نے اقوام عالم کو خبردار کیا کہ اس شرانگیز منصوبے پر کسی بھی درجے میں پیش رفت عالمی امن اور سلامتی کو خطرے میں ڈال دے گی۔ڈار نے اسرائیل فلسطین تنازع پرپاکستان مؤقف وزیر اعظم شہباز شریف کے ایک بیان کی روشنی میں واضح کرتے ہوئے کہا کہ اس جاری المیے کی بنیادی وجہ اسرائیل کا فلسطینی سرزمین پر طویل، غیر قانونی قبضہ ہے، جب تک یہ قبضہ برقرار رہے گا، امن قائم نہیں ہوسکے گا۔ پاکستانی قوم کی ترجمانی کرتے ہوئے انہوں نے صراحت کی کہ ہم اپنی برادر عرب ریاستوں کی آزادی اور علاقائی سالمیت کو لاحق خطرات کے خلاف ان کی خودمختاری کے تحفظ کے معاملے میں مکمل طور پر ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔تاہم اسرائیلی حکمراں تقریباً دو سال کی مدت میں بدترین درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معصوم بچوں اور عورتوں سمیت غزہ کے 62ہزار سے زائد عام شہریوں کو شہید، لاکھوں کو زخمی اور تعلیمی و طبی اداروں سمیت پورے شہری نظام کو مکمل طور پر تباہ کرچکے ہیں اور ان کی پیش قدمی کہیں رکتی دکھائی نہیں دیتی۔اس کا واضح مظہر گزشتہ ہفتے اسرائیل کے وزیر دفاع کی جانب سے غزہ شہر کو فتح کرنے جبکہ تل ابیب حکومت کی اسرائیلی بستی کی تعمیر کے متنازع منصوبے کی منظوری کی شکل میں سامنے آچکا ہے ۔ یہ منصوبے مقبوضہ مغربی کنارے کو مشرقی یروشلم سے الگ کر دینے کا سبب بنیں گے۔ لہٰذا صہیونی قیادت کی ہٹ دھرمی کے آگے بند باندھنے کیلئے مسلم دنیا کی جانب سے مؤثر عملی اقدامات ناگزیر ہیں جبکہ اب تک اس سمت میں کوئی قابل لحاظ پیش رفت منظر عام پر نہیں آئی ہے۔پاکستانی وزیر خارجہ نے اسرائیل کے فتنہ انگیز اور سراسر غیرمنصفانہ توسیعی عزائم کو کلیتاً مسترد کرتے ہوئے کانفرنس کے شرکاء پر واضح کیا کہ اب عملی اقدامات میں تاخیر ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنے گی۔ دنیا کی بہت سی حکومتوں کی جانب سے فلسطین کو ایک باقاعدہ ملک کی حیثیت سے تسلیم کیے جانے پر آمادگی کے اعلانات کا خیر مقدم کرنے کے ساتھ ساتھ باقی ملکوں سے بھی جلدازجلد یہ قدم اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’’ ہمیں مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کانفرنس کو اب 1967ءسے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر، القدس شریف یعنی یروشلم کو اس کا دارالحکومت بنانے کے ساتھ، ایک قابل عمل، خودمختار اور متصل ریاست فلسطین کی بنیاد پر، طویل عرصے سے زیر التواء تصفیے کے منصفانہ حل کیلئے مربوط بین الاقوامی کارروائی کے ذریعے پیش رفت کرنی چاہیے۔ ‘‘ تاہم مسلم وزرائے خارجہ کے اس اجلاس میں بھی بظاہر چند قراردادوں کی منظوری ہی کے عمل میں آئی ہے اور عملی اقدامات کا کوئی اعلان سامنے نہیں آیا جبکہ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ’’عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد‘‘۔ غزہ میں جاری اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں نے آج پوری دنیا میں فلسطینی مسلمانوں کیلئے ہمدردی کی زبردست لہر پیدا کردی ہے اور بیشتر مغربی ممالک بھی فلسطین کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں۔ اس بنا پر اسلامی تعاون تنظیم کیلئے اسرائیلی منصوبوں کو ناکام بنانے کی خاطر نتیجہ خیز عملی تدابیر کا اختیار کیا جانا پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہوگیا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس سمت میں اب مزید کسی تاخیر کے بغیر پیش رفت شروع کی جائے۔