گیارہویں قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل اور جمعہ کو این ایف سی کے پہلے اجلاس کا انعقاد یقیناًایک خوش آئند امر ہے۔ یہ اجلاس 15سال کے طویل عرصےکے بعد منعقد ہورہا ہے تاکہ گیارہویں این ایف سی ایوارڈ پر اتفاق رائے کیلئے مشاورت اور صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم کا تعین کیا جاسکے۔ واضح رہے کہ گزشتہ دنوں صدر مملکت آصف زرداری نے آئین کے آرٹیکل 160(1) کے تحت 9ارکان پر مشتمل گیارہویں قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل کا اعلان کیا تھا جسکے چیئرمین وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور ممبران میں چاروں صوبوں کے وزرائے خزانہ کے علاوہ ماہرین شامل ہیں۔آئین پاکستان کے آرٹیکل 160 کے تحت ہر 5سال بعد نیا این ایف سی ایوارڈ متعارف کرانا لازمی ہے تاکہ ملک کی بدلتی اقتصادی صورتحال کے مطابق وسائل کی تقسیم کا ازسرنو طے کیا جاسکے لیکن یہ امر باعث افسوس ہے کہ 2009ءسے ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں آج تک توسیع ہورہی ہے کیونکہ اس کے بعد کوئی نیا ایوارڈ نافذ نہ ہوسکا۔
قومی مالیاتی کمیشن (NFC) کیلئے وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی منصفانہ تقسیم ہمیشہ سے موضوع بحث رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں وفاق اور صوبوں کے درمیان مسلسل اختلافات کے باعث کوئی نیا فارمولا طے نہیں پاسکا۔ 2015-16ءمیں نویں این ایف سی ایوارڈ کے وقت حکومت کی آمدنی 3112ارب روپے تھی جو 2021-22 کے دسویں این ایف سی ایوارڈ میں 300 فیصد بڑھ کر 6100ارب روپے تک پہنچ گئی اور حالیہ گیارہویں این ایف سی ایوارڈ کے وقت حکومت کی ریونیو وصولی 13000ارب روپے تک پہنچ گئی ہے جس سے صوبوں کی وفاق سے آمدنی میں کئی گنا اضافہ متوقع ہے مگر دوسری طرف وفاق کو موجودہ این ایف سی ایوارڈ کے بعد بڑھتی مالی مشکلات درپیش ہیں کیونکہ ایوارڈ کے تحت قومی مالیاتی وسائل کا 57.5 فیصد حصہ صوبوں کو چلا جاتا ہے اور سالانہ گرانٹس شامل کرنے کے بعد صوبوں کو وفاقی پول سے تقریباً 62 فیصد حصہ مل رہا ہے جسکے بعد وفاق کے پاس صرف38فیصد مالی وسائل رہ جاتے ہیں جو دفاعی بجٹ اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کیلئے ناکافی ہوتے ہیں جنہیں وفاقی حکومت مزید قرضے لے کر پورا کرتی ہے۔
اس طرح موجودہ نافذ العمل این ایف سی ایوارڈ نے مالی وسائل کی تقسیم میں عدم توازن پیدا کردیا ہے جسکے باعث وفاقی حکومت پر بڑے پیمانے پر مالیاتی ذمہ داریاں آن پڑی ہیں جبکہ دوسری طرف صوبے اپنے طور پر خاطر خواہ محصولات حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد این ایف سی ایوارڈز کے تحت پنجاب کو 51.74 فیصد، سندھ کو 24.55فیصد، خیبر پختونخوا کو 14.62 فیصد اور بلوچستان کو 9.09فیصد فنڈز ملتے رہے ہیں جسکے باعث وفاقی حکومت کو دفاع، بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں، پاور سیکٹر کے گردشی قرضوں، نقصان میں چلنے والے حکومتی اداروں پی آئی اے، واپڈا، ریلوے اور اسٹیل ملز کے ناقابل برداشت مالی بوجھ جیسے چیلنجز درپیش ہیں۔ وفاق کے پاس مطلوبہ فنڈز دستیاب نہ ہونے کے باعث دفاعی اخراجات، قرضوں، سود اور پاور کمپنیوں (IPPs) کی ادائیگیاں متاثر ہورہی ہیں جو ملکی سلامتی کے مفاد میں نہیں۔
گیارہویں مالیاتی کمیشن میں یہ بات یقینی بنائی جائے کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت وسائل کی تقسیم آبادی کے بجائے مسائل کی بنیاد پر کی جائے۔ پاک بھارت جنگ میںبھارت نے شکست کے بعداپنے دفاعی بجٹ میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے اور وہ اس انتظار میں ہے کہ کب پاکستان پر دوبارہ حملہ کرکے اپنی ذلت آمیز شکست کا بدلہ لے۔ ایسی صورتحال میں ہمارے بجٹ کا 60 فیصد سے زائد حصے کا صوبوں اور باقی قرضوں کی ادائیگیوں میں چلا جانا لمحہ فکریہ ہے۔ بھارت کا شمار دنیا میں دفاعی ساز و سامان خریدنے والے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہوتا ہے جو اپنے دفاع پر سالانہ 80 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے اور حالیہ پاک بھارت جنگ میں شکست کے بعد بھارت نے اپنے دفاعی بجٹ میں مزید 10 فیصد اضافہ کیا ہے۔ اسکے برعکس پاکستان اپنے دفاع پر صرف 9 ارب ڈالر خرچ کررہا ہے اور اس طرح بھارت کی دفاعی صلاحیت پاکستان سے 10گنا زیادہ ہے۔
کسی بھی ملک کے دفاع کو اس ملک کی سلامتی تصور کیا جاتا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ ترقیاتی کاموں، موٹر ویز، ہائی ویز اور ماس ٹرانزٹ جیسے منصوبوں پر فنڈز صرف کرنے کیساتھ ساتھ دفاعی بجٹ میں اضافہ کرے اور نئے ڈیمز بنائے تاکہ بھارت کی جنگی اور آبی جارحیت کا مقابلہ کیا جاسکے۔
ہمیں وفاق کو مضبوط اور صوبوں کی خود مختاری یقینی بنانے کیلئے وفاق، صوبوں اور تمام سیاسی جماعتوں کی باہمی مشاورت سے این ایف سی ایوارڈ کے مسئلے کو حل کرنا ہوگا تاکہ ملک کو درپیش معاشی چیلنجز سے نمٹا جاسکے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ گیارہویں قومی مالیاتی کمیشن میں مذکورہ بالا تمام پہلووں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے باہمی رضامندی سے رضاکارانہ طور پر ایسی حکمت عملی اپنائی جائے جو ملکی ترقی اور دفاع کی ضامن ہو۔ اگر صوبوں نے ماضی کی طرح غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور این ایف سی ایوارڈ کو اپنی انا کا مسئلہ بنایا اور ملکی مفاد کو ترجیح نہ دی تو آنے والے دنوں میں پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔