• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب میں مون سون کی شدید بارشوں کے تسلسل سے دریائے چناب، راوی اور ستلج کی سیلابی کیفیت نے بھارت سے چھوڑے جانیوالے پانی کے ساتھ مل کر نئے مسائل پیدا کر دیئے ہیں جن کے پیش نظر انتہائی درجے کے سیلاب کا الرٹ جاری کردیا گیا اور پونے دو لاکھ افراد محفوظ مقامات پر منتقل کر دیئے گئے ہیں۔ پنجاب حکومت نے سیلابی ایمرجنسی سے نمٹنے اور امدادی کاموں میں شہری انتظامیہ کی مدد کیلئے چھ اضلاع میں فوج طلب کرلی ہے۔ بھارت نے دریائے راوی کے پاکستان سے ملنے والے تمام گیٹ کھول دیئے جس کے باعث مزید تین لاکھ کیوسک سیلابی ریلے کی آمد شروع ہوگئی اور وہ تمام علاقے جو تین دریائوں میں پہلے سے موجود سیلاب کے باعث متاثر تھے، سنگین خطرات کی زد میں آگئے ۔ بھارت سے آنیوالے پانی سے ندی نالوں میں شدید طغیانی کی کیفیت ہے، درجنوں دیہات کا زمینی رابطہ منقطع ہوچکا ہے، ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں مکانات اور اسکول زیر آب آگئے ہیں۔ سیالکوٹ میں 24گھنٹوں کے دوران ریکارڈ 405ملی میٹر بارش نے گیارہ سالہ ریکارڈ توڑ دیا ۔ مرکزی اور گردونوح کے تمام علاقے ڈوب گئے، بجلی معطل اور تمام نظام زندگی مفلوج ہوگیا۔ کئی علاقوں سے لوگوں کے سیلابی ریلے میں پھنسنے کی اطلاعات ہیں۔ اس کیفیت میں، کہ شمالی علاقوں میں گلیشیئر پھٹنےسے جانی و مالی نقصانات ہوچکے ہیں اور پنجاب کے میدانی علاقے میں کلائوڈ برسٹ اور سیلاب کے خطرات سامنے ہیں ، وفاق صوبوں اضلاع سمیت ہر سطح پر سرکاری مشینری کی مستعدی ضروری ہے تاکہ قیمتی جانوں، املاک اور ملکی معیشت کو لاحق خطرات ممکنہ حد تک کم کئے جاسکیں۔ وزیراعظم شہباز شریف بذات خود اس باب میں صورتحال کا جائزہ لیتے رہے اور منگل کے روز خصوصی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے ہدایات جاری کیں۔ اجلاس کی کارروائی سے جہاں یہ ظاہر ہے کہ ستلج کے سیلاب کے متاثرہ علاقوں سے کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی اور پونے دو لاکھ افراد بحفاظت محفوظ مقامات پر پہنچا دیئے گئے وہاں این ڈی ایم اے کی طرف سے بتایا گیا کہ اگر گلیشیئر پھٹے تو زیادہ تباہی ہوگی۔ یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ اگلے برس مون سون قبل از وقت شروع ہوگا اور اسکی شدت 22 فیصد زیادہ ہوسکتی ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جن کی روشنی میں وزیراعظم نے منگل کے روز ہی منعقدہ ایک تقریب میں عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونیوالی تباہی سے نمٹنے میں پاکستان کی مدد کرے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں درپیش چیلنج کی سنگینی اور قرضوں کے شکار پاکستان کی مشکلات کا درست طور پر حوالہ دیا۔ اگرچہ ہرمتعلقہ فورم پر یہ بات تسلیم کی جاتی رہی کہ ماحولیاتی تبدیلی کے ذمہ دار ترقی یافتہ ملک ہیں جنہیں اُن متاثرہ ملکوں کی مدد کرنی چاہئے جن کا ماحولیاتی تبدیلی میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہےمگر عملی طور پر صورتحال مختلف ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ہمیں اپنی بقاء کے لئے خود ہی کمربستہ ہونا پڑے گا۔ہمیں اپنے آبی ماہرین کو ڈنمارک بھیج کر 2011ء کی آبشار نما خوفناک بارش اور کلائوڈ برسٹ سے نمٹنے کے اسپونیج پارک سسٹم اور دوسرے طریقوں کے بارے میںمعلومات حاصل کرنی ہونگی ، ماہرین کو چین بھیجوا کر چھ سو نہروں کو فلڈ فری بنانے کے طریق کار کی جانکاری حاصل کرنی ہوگی، جاپان بھیج کر سونامی سے نمٹنے کے طریقے سمجھنے ہوں گے اور قوم کو چیلنج سے نمٹنے کیلئے ہر اعتبار سے تیار کرنا ہوگا۔ اگلے وقتوں کے لوگوں سے مل کر یہ معلوم کرنا بھی مفید ہوسکتا ہے کہ بارش کا پانی جذب کرنے اور مویشیوںکی پیاس بجھانے والے جوہڑوں کا اہتمام ہر گائوں ، شہر اور آبادی (یعنی ہائوسنگ اسکیم ) کی منصوبہ بندی کا لا زمی حصہ کیوںہوا کرتا تھا؟

تازہ ترین