• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ٹی ٹی پی کیخلاف کارروائی ، افغان حکومت سے ہمارا صرف یہی ایک مطالبہ ہے ‘‘وزیر خارجہ اور نائب وزیر اعظم اسحق ڈار نے یہ الفاظ گزشتہ روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہے۔ اس مطالبے کا پس منظر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ افغانستان کو پچھلے تقریباً پانچ عشروں میں دو عالمی طاقتوں کی طویل جارحیت اور باقاعدہ منظم فوج کشی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ افغان قوم نے دونوں جارح طاقتوں کے خلاف مثالی مزاحمت کرکے انہیں شکست سے دوچار کیا ۔اس پوری مدت میں پاکستان کے عوام کی ہمدردیاں مکمل طور پر بیرونی جارحیت کیخلاف مزاحمت کرنے والے افغانوں کیساتھ رہیں جبکہ آزمائش کے اس طویل دور میں گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوجانے والے دو چار نہیں کم و بیش چالیس لاکھ افغان شہریوں کی پاکستانی قوم نے انتہائی کشادہ دلی سے اپنا دینی و ملی فریضہ سمجھتے ہوئے میزبانی کی اور وہ پاکستان میں رہائش، کاروبار اور دیگر تمام ضروری سہولتوں کی دستیابی اور مکمل آزادی کے ساتھ اس طرح قیام پذیر رہے جیسے اپنے وطن ہی میں ہوں۔ اس بنا پر توقع تھی کہ امریکی افواج کے افغانستان سے انخلاء اور ان کے خلاف مزاحمت کرنے والی تنظیم تحریک طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات ہر قسم کی کشیدگی اور تنازعا ت سے پاک ہونگے اور عقیدے، تاریخ، جغرافیہ اورہمسائیگی کے رشتوں میں منسلک دونوں ملک یک جان دو قالب کی مثال بن کر زندگی کے ہر شعبے میں گہرے روابط استوار کرینگے، لیکن اسکے برعکس ہوا یہ کہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث بھارت کی مودی حکومت کی حمایت یافتہ دہشت گرد تنظیم کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو افغانستان کے اندر محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہوگئیں اور اس کی جانب سے آئے دن پاکستان کے اندر دہشت گردی کی سنگین وارداتیں ہونے لگیں۔بلوچستان میں بھی بھارت اور بعض شواہد کے مطابق اسرائیل کی بھی سرپرستی کی حامل بلوچ لبریشن آرمی کو بھی افغانستان کی سرزمین پر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں منظم کرنے کی سہولتیں حاصل ہوگئیں۔ نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اسی تاریخی پس منظر اور پاکستان کی طرف سے افغانستان میں ڈرون حملے کیے جانے اور اس پر جمعرات کو کابل میں پاکستانی سفیر کو افغان حکومت کی جانب سے ڈیمارش دیے جانے کی غیرمصدقہ خبروں کے تناظر میں جمعہ کو دفتر خارجہ میں ہونے والی پریس کانفرنس میں بتایا کہ پاکستان اور چین دونوں نے افغان حکام کے ساتھ حالیہ ملاقاتوں میں اپنے سیکورٹی خدشات کا اظہار کیا ہے‘ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ان مذاکرات میں واضح طور پر کہا کہ یا تو کابل حکومت کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے یا انہیں ہمارے حوالے کردے۔ وزیر خارجہ نے اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ افغان حکومت نے ٹی ٹی پی کے سینکڑوں حامی عناصر کو اپنی انتظامیہ میں شامل کیا ہے۔انہوں نے انکشاف کیا کہ کابل میں قائم مقام افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کیساتھ دو طرفہ ملاقات کے دوران بتایا گیا کہ افغانستان نے سرحد پار سے دراندازی کو روکنے کیلئے سات سو سرحدی چوکیاں قائم کی ہیں۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ’’ مجھے ان کے ارادوں پر شک نہیں اور نہ ٹی ٹی پی کیخلاف کارروائی کی ہماری تجاویز پر افغان جانب سے کوئی مزاحمت ہوئی ہے۔ ہمارا صرف ایک مطالبہ تھا: ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی۔ ‘‘ فی الحقیقت افغان حکومت اس پاکستان کے مطالبے کو تسلیم کرکے نہ صرف خطے کو کشیدگی اور دہشت گردی سے نجات دلانے میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے بلکہ اسکے بعد دونوں ملکوں کے درمیان ہر شعبہ زندگی میں ترقی کی نئی راہیں کشادہ کرنیوالے مثالی روابط استوار ہوسکتے اور پائیدار امن و استحکام قائم ہو سکتا ہے۔

تازہ ترین