وطن عزیز کی حالیہ بارشوں اور سیلابی صورتحال میں بھارت نے پہلے ستلج، راوی اور چناب میں اچانک پانی کے ریلے چھوڑ کر پنجاب میں اور بعدازاں چکوٹھی پوائنٹ سے آزاد کشمیر میں مزید آبی جارحیت کا مظاہرہ کرکے جو صورتحال پیداکی اس میں سول انتظامیہ اور مسلح افواج نے مل کر بڑی حد تک ریسکیو کا کام مکمل کرلیا ہے۔ ستمبر کی دو اور تین تاریخ کی درمیانی شب گدو بیراج سے گزرنے والا پانی کا بڑا ریلا سندھ کیلئے یقیناً ایک چیلنج ہوگا جس سے نمٹنے کی تیاریاں ممکنہ حد تک کرلی گئی ہیں۔ گھر بار، مال مویشی اور د وسری سہولتوں سے محروم لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے جس میں کوئی کسر نہ رہنے دی جانی چاہئےجبکہ اندرون ملک لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے ایک جامع حکمت عملی بنائی جانی چاہئے حالات متقاضی ہیں کہ آبی گزرگاہوں کی صفائی یقینی بنانے کیلئے قانونی سازی اور سخت اقدامات سے بھی گریز نہ کیا جائے تاکہ بارش کا پانی اپنے قدرتی راستے سے گزر کر ان مقامات پر پہنچے جہاں اس کی ضرورت یا ذخیرہ کرنے کے انتظامات موجود ہوں۔ آبی ذخیرہ گاہوں ، بالخصوص چھوٹے ڈیموں کی بڑی تعداد میں اور ہر علاقے میں تعمیر ضروری ہے تاکہ انسانوں اور جانوروں کے پانی کی ضروریات پوری ہوں، کسانوں کو آبیاری کیلئے پانی دستیاب ہو۔زراعت کیلئے وسیع رقبے ہر آبادی کے قریب مخصوص ہوں، شجر کاری کو وسعت اور قانونی تحفظ دیا جائے۔وزیر اعظم شہباز شریف کے احکامات پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بروقت نمٹنے کیلئے ایک پالیسی مرتب کی جارہی ہے جس پر صوبوں کے تعاون سے جلد عملدرآمد کیا جانا چاہئے۔پانی کی کمیابی، سیلابوں کے نقصانات سے بچاؤ اور ماحولیاتی حدت کے اثرات سے بچاؤ کیلئے موثر اقدامات ہماری قومی ضرورت بھی ہے اور کرہ ارض کے مفادات کا تقاضا بھی۔ اس باب میں تاخیر کی گنجائش نہیں۔