• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دریا کی روانی دیکھ کر خوش ہونے والے دل گلی کوچوں میں پانی دیکھ کر سہم اٹھے ہیں ۔کلاؤڈ برسٹ ،معمول سے زیادہ بارشیں بستیوں، انسانوں، مال مویشی کو بہاتا سیلاب بلاخیز، خیبر سے کراچی تک اور پھرپنجاب کے دیہات اور لاہور کی پوش سوسائٹی کے مہنگے گھروں تک پہنچا تو بہت کچھ آشکار ہوا۔ قدرتی آفات کے سامنے انسان بے بس ہے مگر انتظامی اداروں کی غفلت اور لینڈ مافیا کامفاد اور لالچ قدرتی آفات کی ستم گری کو قیامت صغریٰ میںبدل دیتا ہے۔لاہور کو وسعت دیتے ہوئے ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانے کے، بے رحم عمل میں زمین کے سرسبز حصے کو صفا چٹ کر دیا گیا درخت کاٹ دیے گئے جنگل بیلے ختم کیے اور کنکریٹ کے شہر بسا دیے۔یوں قدرتی ماحول کا توازن بگاڑ دیا۔غیر معمولی بارشیں، دریاؤں کا بپھر جانا فطرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا نتیجہ ہے۔ سوال در سوال کئی نئے ایشوز مسائل کے اس ملبے سے نکلے ہیں ان پر کون غور کریگا کہ اگلا مون سون اس طرح قیامت خیز نہ بنے۔بارشوں سے ہونے والی تباہی میں کچھ اچھی چیزیں جو سامنے آئیں ان میں کراچی میں ہم نے دیکھا کہ لوگوں نے مشکل میں گھرے اپنے ہم وطنوں کیلئے اپنے گھروں کے دروازے کھولے ، ان کیلئے کھانے پینے اور رہائش کا بندوبست کیا ۔اسی طرح خیبر پختون خوا کے متاثرہ حصوں میںقیامت کی اس گھڑی میں متاثرین کی مدد کیلئے مرد رضاکاروں کےساتھ خواتین بھی شانہ بشانہ شریک تھیں ۔بونیر اور باجوڑ کے علاقوں میں خواتین کا یوں باہر نکل کر کام کرنا آسان نہیں خواتین پورے پردے کیساتھ مصروف عمل تھیں۔ میں جو تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احمد خراسانی کے ایک اعلامیہ پر شدید رنج اور حیرت کی کیفیت میں تھی جو اس نے وانا کے علاقے میں خواتین کے پولیس میں بھرتی ہونے پر جاری کیا ، اس منظر نے دل کو ڈھارس دی ، بہت سے سوالوں کے جواب ملے وہ سوالات اور خدشات جو خیبر پختون خوا کے قبائلی علاقوں میں جہالت پر مبنی روایت اور رسم و رواج کے پروردہ سماج میں ابھرتے ہیں۔ خیبر پختون خوامیں کلاؤڈ برسٹ میں گاؤں کے گاؤں دیکھتے ہی دیکھتے سیلابی ریلوں کی نذر ہو گئے ان گھروں میں بیٹھی ہوئی باپردہ عورتیں بارش میں ملبہ بنتے گھروں کے نیچے دب گئیں۔ ان خواتین کی میتوں کو نکالنا ان کو تدفین کیلئےنہلانا اور پھر کفن دفنکا اہتمام،یہ کام مرد رضا کار نہیں کر سکتے تھے۔خواتین ہی کو باہر آنا پڑا ۔ باپردہ خواتین سر سے پاؤں تک چادر میں ڈھکی ہوئیں چہرے بھی ڈھانپے ہوئے مگر جس ماحول میں انہوں نے کام کیا وہاں مرد رضاکار بھی شاید لڑکھڑا جاتے ہوں۔ اسی خیبر پختون خوا میں ضم ہونیوالے قبائلی علاقے وزیرستان میں ٹی ٹی پی کے ترجمان نے خواتین کی پولیس میں بھرتیوں کیخلاف اعلامیہ جاری کیا۔جیسے پورے پاکستان میں اقلیتوں اور معذور افراد کا کوٹا ہے پولیس میں خواتین کیلئے پانچ فیصد کوٹا مختص کیا گیا ہے ۔ اور اسی قانون کے تحت وانا میں یہ بھرتیاں کی گئی ہیں۔ کچھ معاملات ایسے ہیں کہ جہاں خواتین ہی کی ضرورت پڑتی ہے خواتین کو اگر پولیس اسٹیشن کام ہوگا تو وہ خاتون پولیس افسر کو اپنے معاملات آسانی سے بتا سکے گی۔اس طرح امن و امان قائم رکھنے کے حوالے سے بہت سے معاملات ایسے ہیں کہ جہاں خواتین ہی خواتین کو ڈیل کر سکتی ہیں۔اب اگر تحریک طالبان پاکستان کےاحمد خراسانی کااس پر اعلامیہ پڑھیں جس میں کہا گیا ہے کہ خواتین کا پولیس میں بھرتی ہونا غیر اسلامی ہے اور غیر شرعی ہے کیونکہ اس سے گھر کے راز باہر آئیں گے ۔ساتھ ہی کہا گیا کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی سازش ہے کہ قبائلی خواتین کو گھر سے باہر نکالا جائے ۔اس جہالت پر مبنی پروپیگنڈے کو رد کرنا چاہیے کیونکہ یہ سوچ اسلامی نظریات کے برعکس ہے۔ کاش یہ روشنی کے دشمن اگر تاریخ نہیں جانتے تو ایک کتاب سید سلمان ندوی کی خواتینِ اسلام کی بہادری ،مسلمان عورتوں کی جنگی اور اخلاقی شجاعت کے کارنامے کامطالعہ کرتے انہیں علم ہوتا کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ اقدس میں غزوات میں بھی صحابیاتِ شریک ہوتی تھیں ان کے ذمے زخمیوں کی مرہم پٹی ہوتی تھی ان کیلئے کھانے کی تیاری ہوتی تھی۔ آپﷺ کے بعد بننے والی اسلامی حکومتوں میں بھی خواتین اپنی خانگی ذمہ داریوں کے علاوہ معاشرے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتی رہی ہیں۔انہیں کام کرنے اور معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی آزادی تھی۔

پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح قبائلی علاقے کی خواتین کو بھی معاشی اور سماجی طور پر اپنی شناخت بنانے اور معاشی طورپر خود کو مضبوط بنانے کا حق حاصل ہے یہ حق اسلام ہر خاتون کو دیتا ہے۔

وزیرستان برسوں سے دہشت گردی کا شکار ہے اور آج بھی دہشت گردی کے زخم سہہ رہا ہے افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی آج بھی جنوبی وزیرستان کو بے امنی سے دوچار کر رہی ہے۔جب تک تعلیم شعور اور معاشی مضبوطی اس علاقے میں نہیں آئے گی، لوگ آسانی سے دشمنوں کے سہولت کار بنتے رہیں گے۔اس علاقے کے بچوں ،نوجوانوں اور خواتین کو تعلیم یافتہ بنانے اور انہیں باروزگار بنانے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ تحریک طالبان پاکستان کا اعلامیہ پوری شدت سے رد کرنا چاہیے کیونکہ علم اور شعور کےچراغ بجھا کر تاریکی کی سہولت کاری بھی سماج میں سب سے بڑی دہشت گردی ہے۔ وزیر ستان کی تیس بہادر بیٹیوں اور انکے باشعور خاندانوںکیلئے نیک تمنائیں جنہوں نے جہالت کی تاریکی میں کم ازکم اپنے حصے کا چراغ جلایا یہ تبدیلی مشکل حالات میں امید کی روشنی ہے۔

پس تحریر :ہفتے کی دوپہر اور لاہور میں طوفانی بارش کا عالم ،کبھی بارش کا موسم حسین لگا کرتا تھا مگر اب بارش میں احمد فراز کی آواز آتی ہے

ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز

کچا تیرا مکان ہے کچھ تو خیال کر

تازہ ترین