کچھ بھی کہہ لیں یا کچھ بھی کر لیں، پالیسیوں کو تشکیل دینے کا معاملہ ہو یا ادارہ سازی اور انسٹیٹوشنز کی کارکردگی کا تعین، جب تک مکالمہ اور تنقیدی سوچ کو تقویت نہیں ملتی تب تک مطلوبہ نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں۔ تنقیدی سوچ اور تخلیقی بچار کا چولی دامن کا ساتھ ہے! ہم نے کبھی سوچا کہ کتنے امریکی ہیں جو اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک میں جا کر بسیرا کرتے ہیں ؟ شاید آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ بڑے نامور اور کامیاب ممالک کے باسی آپ کو امریکہ کی قیام گاہوں کے دلدادہ ملیں گے کہ وہاں ڈائیلاگ ، تنقیدی و تحقیقی و تعمیری افکار ہیں۔ اس پر ہماری اگلی نسل کو بالخصوص سوچنا ہوگا۔ ہماری اگلی نسل جو امریکہ و برطانیہ اور آسٹریلیا و فرانس سے مقدار اور خواص کے تناظر میں زیادہ شباب اور نوجوانی رکھتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 15سے 29سال کا شباب 26فیصد ہے۔ مجموعی طور پر 30سال سے کم عمر والے لوگ 65فیصد ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سرگرمیوں کو نمٹانے یا ورکنگ عمر 15سے 59سال تک کی عمر ہے ، اور اس عمر کے لوگ وطن عزیز میں تقریباً 54فیصد ہیں۔ یہ کمال اوسط ہے جو سیکھنے ، کام کرنے، تحقیق اور تصدیق کرنے کی شاندار عمر ہے جو مغرب کو میسر نہیں۔ اِنوویشن اور پائیدار ترقی کیلئے یہ بہترین گروپ۔ یہاں سوال یہ نہیں پیدا ہوتا کہ ترقی کیوں نہیں ہو رہی سوال یہ جنم لیتا ہے کہ اس درجہ بندی کی عمر میں ترقی کیوں نہیں؟ کیونکہ اتنی مقدار تو پائیداری کا معیار ہونی چاہئے!آفتوں اور قیامتوں کے اس موسم میں اچانک دھیان عمر کی اس کوالٹی کی طرف چلا گیا جو بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا اور جنکا نشیمن قصرِ سلطانی کا گنبد ہے، لیکن یہ شاہین جنکے سامنے آسماں اور بھی ہیں جو محتاط اندازے میں 26 فیصد سے زائد ہیں وگرنہ 45 فیصد تک اگر یہ سب شاہین کے مکان کے بجائے کرگس کے جہاں میں ہیں تو قصور پالیسی سازوں اور قانون سازوں کا ہے، قصور تھوڑا سا پروفیسرز کا بھی ہے اور سوشل انجینئرز کا بھی۔ جب آپ شاہین سے اسکی چونچ کی کوالٹی اور چیلنجز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والی نظر اور نظریہ چھین لیں گے تو وہ نظرکَش کیسے رہیگا ؟ سیاستدان کی رتی برابر دور اندیشی ، تعصب اور حرص اقوام کو کبھی بھنور میں پھنسا دیتے ہیں تو کبھی طغیانیوں میں ۔ بیوروکریسی ، پولیس، اور ایف آئی اے جیسے جہاندیدہ طبقوں سے پوچھیں گے تو وہ فرمائینگے کہ ہر مرض کا علاج ہمی ہیں یہ کبھی نہیں سوچیں گے ان میں سے بیشتر ازخود لا علاج مرض ہیں جو ملک کےنوجوانوں کی کھیپ پر ٹڈی دل کا حملہ ہیں ! رہی بات سیاستدان کی تو وہ برادری اور اقربا پروری سے ستر اَسی سال سے باہر ہی نہیں نکلا، سیاستدان ایک اسٹیٹس مین ہونے کے بجائے ایک’’خانقاہ‘‘ بن گیا ہے۔ وہ نسب جو فقط حسب کا متلاشی!موسموں اور دریاؤں کی ناراضی کے اس موسم میں اتفاق سے رانا مشہود احمدچیئرمین پرائم منسٹر یوتھ سے پچھلے دنوں دو دفعہ ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک تو انہیں دیکھتے ہی بے ساختگی سے منہ سے نکل جاتا ہے کہ آپ پنجاب کی تعلیم کو اداس کرکے مرکز میں چلتے بنے۔ اور وہ محض مسکرا کر ٹال دیتے ہیں ، کہتے کچھ نہیں۔ لیکن اس دفعہ ہم نے انہیں کہا کہ آپ نصیر میمن کی ایک چھوٹی سی کتاب’’مِس گورنس آف انڈس واٹر :کنٹروورشیل کینالز اینڈ کارپوریٹ فارمنگ‘‘ ضرور پڑھئے کیونکہ آپ پاک وطن کے یوتھ کا ذمہ لئے ہوئے ہیں گویا اس وقت آپ پاکستانی یوتھ کے انکل ہیں۔ غزالی ٹرسٹ کی ایک نشست میں ڈی جی پبلک لائبریریز پنجاب کاشف منظور نے جب کہا کہ چیئرمین پی ایم یوتھ پروگرام مطالعے کے بہت شوقین ہیں ، تو راقم نے سید عامر محمود جعفری کو آنکھوں ہی آنکھوں میں پوچھا تو انہوں نے بھی تصدیق کردی ، میری امیدیں پہلے ہی چیئرمین صاحب سے بہت تھیں ، اس ’’ شیریں انکشاف‘‘سے مزید بڑھ گئیں۔ ریسرچ اور پالیسی کے ایک پرچہ کی رہنمائی رانا مشہود احمد کئی برس سے کر رہے ہیں جسے سائرہ افتخار دیکھتی ہیں۔ سو ان کی نذر ہے کہ :ریاضی اور فزکس کی طرف آنا ہوگا علاوہ بریں ارضیات یا ماحولیاتی سائنسز کے ماہرین کی ہمیں اشد ضرورت ہے۔ بےحد ضرورت ہے کہ زمینی مائیکرو بائیولوجی پر بھی ہمارا ماہر توجہ دے۔ اور لازم ہے کہ دریائی پانیوں کو تین حصوں میں تقسیم کر کے سمجھا جائے پھر پالیسی بنے۔ 1۔ دریائی پانی کے بہاؤ کے فہم سے اسکی انتظامیہ و انتظامی امور کو سمجھنا اور پرکھتے رہنا ضروری ہے۔ 2۔ دریاؤں اور اس کے کناروں سے جڑی آباد کاریوں اور عالمی و قومی و صوبائی معاہدوں سے متعلقہ قانونی تدبر کو مدنظر رکھنا بھی لازم ہے۔ 3۔ آبی پالیسیوں اور فیصلوں کے ماحولیاتی نتائج کا ادراک بھی اشد ضروری ہے۔ ان تینوں معاملات میں صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے وقت اور سرمایہ کی انویسٹمنٹ ضروری ہے اور ان امور پر نوجوانوں کو جوڑے رکھنا بھی بہت اہم ہو گیا۔ یہ نہیں جب سیلاب یا طوفان آئے تو کچھ محکمے اور کچھ اتھارٹیز بنا لیں اور پھر لمبی تان کے سو جائیں اور ان اداروں میں بھی سفارشی بھرتیاں کرکے قومی ضرورت کو بالائے طاق رکھا جائے اور سیاست کو سامنے۔ قلیل مدتی اور طویل مدتی اہداف کے فکر کا بوجھ نوجوان کے سر پر آج ہی رکھئے کہ وہ مستقبل کی ٹیکنالوجی اور سائنس کو سنگ سنگ لیکر چلیں کہ اقوام متحدہ کی 2025ءکی رپورٹ فراموش کرنا اجتماعی خود سوزی سے کم نہیں۔ 2011ءسے 2020ء تک پگھلنے والے گلیشیرز پچھلی دہائی سے 65فیصد زیادہ تیزی سے پگھلے۔ ہندوکش ہمالیہ کا سلسلہ 35ہزار کلومیٹر کا پھیلاؤ رکھتا ہے، یہ دس بڑے ایشیائی دریاؤں کا ’’واٹر ٹینک‘‘کہلاتا ہے۔ دنیا کی چوتھائی آبادی اس پانی پر انحصار کرتی ہے۔ کہیں خشک سالیاں اور کبھی طغیانیاں، انہی پر نوجوانوں کی کمند اب ستاروں پر کمند ہے۔ یہ تھیوری نہیں اب پریکٹیکل ٹھہرا۔ یہ سب سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ہی پریکٹس میں لائے گی۔ اصلی پالیسی سازوں اور زیرک جوانوں کے مجموعے ہی طوفانوں کے آگے بند ہیں ، ازسرِ نو تنقیدی و تحقیقی و تعمیری افکار کا سوچئے، صاحب! اور شباب ہی بند ہے طغیانیوں کے سامنے!!