• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بانی پی-ٹی-آئی کی جانب سے اڈیالہ جیل میں میڈیا سے بات چیت کے نام پر 26 اگست کو ان کے آفیشل ایکس اکاؤنٹ سے جاری کی جانے والی تحریر عمران خان کی ذہنی کیفیت کی غماز اور اقتدار کے حصول کے لئے تخریبی سیاست، منفی رجحان اور بلیک میلنگ پر مبنی ایجنڈے کا انکشاف ہے اور یہ واضح کرتی ہے کہ پاک بھارت جنگ میں تاریخی شکست کے بعد اسرائیل اور بھارت سمیت عمران خان کے بدیشی آقاؤں کے حوصلے بھی ٹوٹ چکے ہیں اور ان کا عمران خان کے ذریعے پاکستان اور افواج پاکستان کو نقصان پہنچانے اور دفاعی طور پر کمزور کرنے کا خواب بھی چکناچور ہو گیا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ عمران خان کے آفیشل ایکس اکاؤنٹ سے جاری اس تحریر میں بلیک میلنگ، الزام تراشیوں اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کے تمام لوازمات موجود ہیں لیکن اس غیر مؤثرتحریر میں کوئی نئی بات شامل نہیں جس کا عالمی سطح پر استفادہ کیا جا سکے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملکی نظام کو جبر کی حکومت قرار دینے والے عمران خان ایک موذی مرض میں مبتلا ہیں جس کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں لیکن یہ عیاں ہے اپنے ماضی کو بھول کر مستقبل کے لئے سازشیں گھڑنے والے عمران خان حوصلہ ہار چکے ہیں اور پارٹی اور اس کے رہنماؤں کو اپنے لئے ناکارہ سمجھتے ہوئے کسی ایسے راستے کی تلاش میں ہیں جس کے ذریعے وہ ماضی کی طرح انہیں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے لئے فوج کے اعلیٰ حکام کے کندھے میسر ہو جائیں لیکن وہ اس حقیقت سے بھی غافل نہیں کہ وہ اپنی پرتشدد اور ریاست دشمن پالیسیوں کی وجہ سے اقتدار سے کوسوں دور ہو چکے ہیں اور اب ان کے خواب خواب ہی رہیں گے، شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتے۔کیونکہ ریاست دشمنی میں ان کے پیچھے کھڑے ہونے اور ان ریاست دشمنی کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کے دعوے کرنے والے تمام فصلی بٹیرے ایک ایک کر کے اڑ گئے اور باقی رہ جانے والے اڑنے کے لئے موقع کے انتظار میں ہیں۔ان تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ عمران خان اپنی سیاسی زندگی کے اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ان کی سیاست کی بقا اور رہائی کا واحد راستہ صرف علی امین گنڈاپور کا اقتدار میں رہنا ہے کیونکہ ان کے خیال میں گنڈاپور کواسٹیبلشمنٹ کی قربت حاصل ہے اور اس بات کا قوی یقین ہے کہ وہ گنڈاپور کے ذریعے فوج کی اعلیٰ قیادت کا قرب حاصل کر سکتے ہیں جبکہ انہیں عدلیہ کو مینج کرنے کی ذمہ داری بھی گنڈاپور کو دی سکتی ہے جس کے ذریعے ’’ثاقب نثار کے معیار کا عادل‘‘ تلاش کیا جاسکتا ہے۔اس سلسلے میں اپنے آفیشل ایکس اکاؤنٹ میں گنڈاپور کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’علی امین گنڈا پور کو سپریم کورٹ جا کر مجھ چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات کی اجازت مانگنی چاہیئے۔ اس سے پہلے بجٹ پر بھی مجھ سے مشاورت و ملاقات نہیں کی گئی۔ علی امین کو آ کر مجھے صوبے کی گورننس، امن و امان اور دیگر اہم امور پر بریفنگ دینی ہے جس کے لیے سپریم کورٹ سمیت ہر فورم پر بھرپور کوشش کرنی چاہیے-‘‘اپنے دور اقتدار میں سیاسی مخالفین اور ان کے عزیز و اقارب کو نشان عبرت بنانے کو اپنا سرکاری حق تصور کرنے اور سابق وزیراعظم کے ٹیگ کے ساتھ موجودہ دور میں جیل میں حاصل پرتعیش مراعات کو اپنا آئینی حق قرار دینے والے عمران خان جو ماضی کو یکسر فراموش کردینے کی بیماری میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں شاید یہ بھی بھول گئے کہ انہوں نے اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کرنے کے لئے سابق وزیر اعظم کو پانامہ کے من گھڑت اور جھوٹے مقدمہ میں نااہل کروانے کی سازش میں شریک جرم ہوئے لیکن یہ نہیں سوچا کہ کل ان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو سکتا ہے۔اس کے بعد فوج کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہی اپنی پسندیدہ عدلیہ کے ذریعے مرضی کی سزائیں دلوائیں اور سابق وزیراعظم اور ان کے اقربا کو مختلف جھوٹے مقدمات میں جیلوں میں بند کردیا اور اعلان کیا کہ ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی بلکہ اس مؤقف کے ساتھ کہ جرائم کی سزائیں کاٹنے آئے ہیں، عیاشیاں کرنے نہیں،ان سے قانونی مراعات بھی چھین لیں اور آج جب اپنی باری آئی تو یہ آہ و بکا کیوں؟ حالانکہ اس دور میں عدلیہ کے کردار کی وجہ سےانہیں وہ مراعات دی گئیں جو موجود وزیراعظم کو بھی حاصل نہیں ہو سکتیں۔ جو بویا جاتا ہے وہی کاٹا جاتا ہے، پتھر بونے والوں کو کبھی ہیرے نہیں ملتے!

تازہ ترین