مصنّف: اطہر اقبال
صفحات: 320، قیمت: 1200 روپے
ناشر: فرید پبلشرز، 12، مبارک محل، نزد مقدّس مسجد، اردو بازار، کراچی۔
فون نمبر: 2360378 - 0345
اطہر اقبال اُن چند گنے چُنے لکھاریوں میں سے ایک ہیں، جنہیں حقیقی معنوں میں’’بچّوں کا لکھاری‘‘ کہا جاسکتا ہو۔بلدیہ عظمیٰ کراچی سے وابستہ ہیں۔ ایک عرصے سے مختلف شعبوں اور شخصیات کے ساتھ بطور افسر تعلقاتِ عامّہ فرائض سرانجام دیتے چلے آ رہے ہیں اور اِس حوالے سے بھی اُن کی گراں قدر خدمات ہیں۔ اُن کی اب تک بچّوں سے متعلق دس کتابیں منظرِ عام پر آچُکی ہیں، جن میں’’ ایک کہاوت، ایک کہانی‘‘ بھی شامل ہے، جس کی جِلد چہارم اِس وقت ہمارے ہاتھوں میں ہے۔
ویسے تو اُن کی تمام کتابیں بے مثال ہیں، مگر اِس کتاب نے تو بے حد مقبولیت حاصل کی اور ڈاکٹر رؤف پاریکھ کی نظر میں اِس کا سبب یہ ہے کہ’’محاوروں کی وضاحت کے لیے چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھی ہیں، یہ کہانیاں دل چسپ بھی ہیں اور اخلاقی سبق بھی رکھتی ہیں۔ اِس طرح یہ کتاب بچّوں کو اُردو زبان سکھانے کے علاوہ اُن کی عُمدہ تربیت کا کام بھی کرتی ہے، یہی اِس کتاب کی مقبولیت کی وجہ بھی ہے۔‘‘اطہر اقبال نے اِس جِلد میں 101 مقبولِ عام کہاوتوں کا انتخاب کرکے اُنہیں حروفِ تہجّی کی ترتیب سے پیش کیا ہے۔
پہلے کہاوت تحریر کی گئی ہے اور پھر اُس کے مطابق ایک دل چسپ کہانی تخلیق کی گئی ہے، جس کے ذریعے کہاوت کا مطلب و مفہوم اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے۔ بچّوں کےمزاج کے پیشِ نظر کہانیوں کے ساتھ پُرکشش خاکے بھی بنائے گئے ہیں۔یہ کہانیاں بے مقصد، محض لفاظی یا جن بھوتوں کے قصّوں پر مشتمل نہیں ہیں، بلکہ اِن میں بچّوں کی تعلیم و تربیت کا عظیم مقصد پیشِ نظر رکھا گیا ہے، وہ بھی اِس طرح کہ کہانی، کہانی ہی رہے، وعظ و نصیحت نہ بنے اور مصنّف اِس مشق میں پوری طرح کام یاب نظر آتے ہیں۔
اطہر اقبال کا کہنا ہے کہ’’عموماً بچّے اپنے بڑوں سے یہ کہاوتیں سُنتے ہی رہے ہوں گے، مگر ان کے مفہوم، معنی اور استعمال سے شاید بہت سارے بچّے یا کسی حد تک بڑے بھی ناواقف ہوسکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اپنی روزمرّہ کی گفتگو، بول چال یا تحریر اور تقریر میں کہاوتوں کا درست استعمال نہیں کرپاتے۔ جب کہ کہاوتوں اور محاورات سے آگاہی کے بغیر زبان و بیان پر عبور حاصل نہیں کیا جاسکتا، تو اِسی ضرورت کے تحت مجھے یہ کتاب لکھنے کا خیال آیا۔‘‘
یہ شکوہ عام ہے کہ آج کی نسل درست اُردو بول پاتی ہے اور نہ ہی درست لکھ سکتی ہے، تو لازمی امر ہے کہ اِس مقصد کے لیے بچّوں کو کتاب سے جوڑنا ہوگا اور اطہر اقبال کی یہ کتاب اِس ضمن میں ایک اَن مول تحفہ ہے۔ اِس کے دل چسپ مواد اور شیریں اسلوب سے بچّوں میں مطالعے کی رغبت بڑھے گی، وہیں یہ اُن کی تعلیم و تربیت کی ضرورت بھی پوری کرتی ہے۔اِس پس منظر میں اِسے تعلیمی اداروں اور گھروں تک ضرور پہنچایا جانا چاہیے۔