چین کے شہرتیانجن میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس اس حوالے سے خاص طور پر دنیا بھر کے مبصرین کی توجہ کا محور بن گیا ہے کہ اس کا انعقادحالیہ چار روزہ پاک بھارت جنگ کے صرف چند ماہ بعد اس صورت حال میں ہورہا ہے کہ اس میں پاکستان اور بھارت دونوں کے وزرائے اعظم شریک ہیں۔ وزیر اعظم بھارت نریندر مودی پہلگام ڈرامے کے ذریعے پاکستان کو دہشت گرد ریاست ریاست ثابت کرکے عالمی سطح پر تنہا کرنے کی سازش اور اس کے بعد کی گئی جارحیت میں منہ کی کھانے کے بعد شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کررہے ہیں جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف ایک ایسے ملک کے سربراہ کی حیثیت سے کانفرنس میں شریک ہیںجس نے جھوٹی الزام تراشی کی بنیاد پر مسلط کی گئی جنگ میں اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کو ناقابل یقین تیزرفتاری کے ساتھ بدترین تباہی سے دوچار کرکے جنگ بندی کی بھیک مانگنے پر مجبور کردیا۔ اس جنگ میں پاکستان کو شنگھائی تنظیم اجلاس کے میزبان ملک چین کے علاوہ کانفرنس میں شریک ترکی اور آذربائیجان کی مکمل اور پرجوش اخلاقی وسفارتی حمایت حاصل رہی جبکہ پاکستان کی نسبت بھارت سے زیادہ دیرینہ اور گہرے روابط رکھنے والی عظیم ریاست روس نے بھی پاک بھارت جنگ میں بھارتی مؤقف کی حمایت نہیں کی ، پھرجنگ کے بعد بین الاقوامی برادری کو پاکستان کے خلاف اپنے مؤقف کے درست ہونے کا یقین دلانے کیلئے بھارت کی سفارت کاری بھی بری طرح ناکام رہی۔ ان اسباب کی بنا پر اس اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف کی آؤ بھگت بلاجواز جارحیت کو شکست دینے والے ایک فاتح ملک کے سربراہ کی حیثیت سے ہوتی نظر آرہی ہے جبکہ وزیر اعظم مودی پر شکست خوردگی کے سائے چھائے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ سمجھنا سنگین خوش فہمی ہوگی کہ بھارت کی عالمی اہمیت ختم ہوگئی ہے اور پاکستان کو اقوام عالم میں مستقل بنیادوں پر بلند مقام بنانے کیلئے اب کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔بھارتی حکمرانوں نے مسلسل محنت اور درست پالیسیوںکے تسلسل سے اپنی قومی معیشت کو دینا کی مضبوط ترین معیشتوں میں شامل کردیا ہے۔ تمام شعبہ ہائے زندگی میں بھارتی ماہرین نے دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ آئینی اور جمہوری حوالوں سے بھی بھارت پاکستان سے کہیں آگے ہے‘ لہٰذا ہمیں اپنے ملک کو پائیدار بنیادوں پر امن و استحکام اور ترقی و خوشحالی کی راہ پر گام زن کرنے کیلئے ابھی بہت کچھ کرنا ہوگا۔ یہی وہ بات ہے جو وزیر اعظم شہباز شریف نے اتوار کو تیانجن یونیورسٹی میں فیکلٹی ممبران اور طلباء سے خطاب کرتے ہوئے ان الفاظ میں کہی کہ ’’ چین نے ترقی تقریروں سے نہیں عمل سے کی ہے۔‘‘اس موقع پر انہوں نے مزید کہا کہ ’’غربت کے خاتمے اور مشترکہ خوشحالی کا صدر شی جن پنگ کا وژن ہمارے لیے مشعل راہ ہے‘چین اگر آج دنیا کی بڑی معاشی اور فوجی قوت ہے تو یہ صرف باتوں سے نہیں بلکہ عملی جدوجہدسے ممکن ہوا ہے۔ بدعنوانی اور غربت کا خاتمہ ہماری حکومت کی ترجیح ہے۔ان کا کہنا تھا کہ چین نے 80 کروڑ سے زائد افراد کو خط غربت سے نکالا ہے یہ ایک بہت بڑی کامیابی اور دنیا کیلئے ماڈل ہے۔صدر شی جن پنگ مشترکہ خوشحالی،ترقی کے فروغ اور بدعنوانی کے خاتمے پر یقین رکھتے ہیں‘ یہی میری پاکستان میں پالیسی ہے‘ہمیں چین کے ماڈل سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘ بلاشبہ مسلسل جدوجہد سے چین نے- جس کی تشکیل تقریباً پاکستان کے ساتھ ہی عمل میں آئی تھی- معیشت، تعلیم، دفاع، سائنس و ٹیکنالوجی اور صنعت و زراعت سمیت تمام شعبوں میں حیرت انگیز ترقی کی ہے اوراس سمت میں کامیاب پیش رفت کیلئے پاکستانی قوم کو بھی مصور پاکستان علامہ اقبال کے الفاظ میں یقینا گفتار کے نہیں کردار کے غازیوں کی ضرورت ہے۔