• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کی چالیس فی صد سے زیادہ آبادی کی نمائندہ شنگھائی تعاون تنظیم کی 25ویںسربراہ کانفرنس چین کے شہر تیانجن میں منعقد ہوئی۔یہ اجلاس اس بنا پر خصوصی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ اس وقت دنیا کو کئی بین الاقوامی تنازعات کا سامنا ہے جبکہ دہشت گردی کا مسئلہ بھی عالمی اور علاقائی امن کیلئے ایک سنگین چیلنج بنا ہوا ہے ۔ غزہ میں جاری اسرائیلی درندگی بند کرانے میں عالمی برادری کی ناکامی ، روس یوکرین جنگ کا طویل ہوتے چلے جانااور پاکستان کے خلاف بھارت کی حالیہ جارحیت جس میں پاکستان کی منہ توڑ جوابی کارروائی کے باعث اسے شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے بعد پاکستان میں بھارتی حمایت یافتہ دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں میں نمایاں اضافہ جیسے معاملات، شنگھائی تنظیم کے سربراہی اجلاس کیلئے خاص طور پر قابل غور تھے ۔ اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودگی میں پاکستان کا موقف نہایت مدلل اور دوٹوک طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا ۔ دہشت گردی‘ علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کوپورے خطے کیلئے سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کی ہرشکل اور ہر صورت کی مذمت کرتا ہے‘دنیا سیاسی مفادات کیلئے دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے والے ممالک کے جھوٹے بیانیے کو تسلیم نہیں کرتی‘ بلوچستان و خیبر پختونخوا میں دہشت گرد حملوں میں بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں‘ گھناؤنے جرائم کے ذمہ داروں اور ان کے سہولت کاروں کو جوابدہ ہونا ہوگا‘جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کیلئے جامع مکالمے کی ضرورت ہے‘پاکستان اپنے تمام ہمسایہ ممالک سے معمول کے تعلقات کا خواہا ں ہے۔عالمی امن و استحکام کے قیام کے حوالے سے اس اہم بین الاقوامی کانفرنس سے بامقصد رہنمائی اور عملی اقدامات کی توقع کی جارہی تھی اور اس کے مشترکہ اعلامیہ سے واضح ہے کہ اس ضرورت کو پورا کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔مشترکہ اعلامیہ میں دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کے موقف کی تائید پاکستان کی یقینا بڑی کامیابی ہے ۔ مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان میں جعفر ایکسپریس ، خضدار حملوں اور پہلگام واقعے کی مذمت کرتے ہوئے رکن ممالک نے دہشتگردی اور انتہاپسندی کے سرپرستوں کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دہشتگردی پر پاکستان کا موقف ہمیشہ سے واضح اور دو ٹوک رہا ہے جسے پوری دنیا نے تسلیم کیا ہے۔اعلامیے میں کہا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دہرے معیار کو کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔اعلامیے میں زور دیا گیا کہ دہشت گردوں کی سرحد پار نقل و حرکت سمیت دہشت گردی کے تمام پہلوؤں کا مؤثر انداز میں مقابلہ کیا جائے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک نے اس بات پر زور دیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں، عالمی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی اور اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مشترکہ اور مؤثر کارروائی کی جائے۔ رکن ممالک نے غزہ میں شہریوں کی ہلاکتوں اور انسانی تباہی کا سبب بننے والے اقدامات اورایران پر امریکی اور اسرائیلی حملوں کی شدیدمذمت کرتے ہوئے پائیدارجنگ بندی اورغزہ میں بلا روک ٹوک انسانی امداد کی رسائی کا مطالبہ کیا۔تنظیم نے اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کی دوبارہ تشریح کے خلاف بھی خبردار کیا ہے، جس میں 2015ے ایران جوہری معاہدے کی توثیق کی گئی تھی۔رکن ممالک کے رہنماؤں نے سربراہ اجلاس کے دوران سکیورٹی، معیشت، ثقافتی تبادلوں اور ادارہ جاتی تعمیر سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو مضبوط بنانے سے متعلق 24اہم دستاویزات کی منظوری دیدی۔بلاشبہ شنگھائی تنظیم تنازعات و دہشت گردی کے خاتمے اور عالمی امن و ترقی کے عمل میں کلیدی کردار انجام دے سکتی ہے اور توقع ہے کہ اس کے فیصلوں کے مثبت اور خوشگوار نتائج سے جلد پوری دنیا مستفید ہوگی۔

تازہ ترین