مارچ 2023، عمران خان نے مراد سعید کو ممکنہ جانشین بتایا تو مقصد ’’مراد سعید کو آگے لانا نہیں تھا بلکہ شاہ محمود قریشی کو معزول کرنا ہے‘‘۔ میری نپی تلی رائے! پاکستان میں جب کسی جماعت کو مقبولیت ملتی ہے تو تنظیم برباد رہتی ہے، دوسری طرف مثالی تنظیم مقبولیت کو گھائل رکھتی ہے ۔70 کی دہائی میں جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کی مثالیں موجود ، جماعت اسلامی ایک مثالی تنظیم ، دوسری طرف پیپلز پارٹی اگرچہ غیرمعمولی مقبول مگر ہڑبونگ بنی رہی ۔
الیکشن 2002 میں عمران خان نے میانوالی سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو مجھے میانوالی منتقل ہونا پڑا ۔ سال بھر کی محنت شاقہ سے الیکشن جیت گئے ۔ جیت عمران خان کی سیاسی زندگی کا فیصلہ کن موڑ ثابت ہوئی۔ عمران خان کا کہنا کہ’’جس طرح تم نے میانوالی کا الیکشن منظم کیا اور جیتے ، کسی طرح تحریک انصاف بھی منظم کر دو ‘‘۔ میرا پس منظر ایک ایسی طلبہ تنظیم سے جو تنظیم میں ایک مثال تھی ۔ 70 کی دہائی میں اسلامی جمعیت طلبہ کا سرگرم کارکن ، تنظیم سازی کے بنیادی اصول سیکھے اور اپنائے ۔ ذاتی تجربہ کہ تنظیم اور مقبولیت کا توازن قائم رکھنا ایک مشکل عمل ہے ۔ جمعیت مقبولیت کے ریکارڈ توڑ رہی تھی تو تنظیم اسی مقدار میں متاثر ہو رہی تھی ۔
اوّل روز سے تحریک انصاف کبھی منظم پارٹی نہ تھی ۔ آج ملک کی مقبول سیاسی پارٹی ضرور ، تنظیم ابتر پہلے سے بھی بدتر نظر آرہی ہے ۔ ہمیشہ سے تاثر یہی کہ عمران خان’’ جانشین‘‘میں دلچسپی نہیں رکھتے ، اسکی وجوہات معلوم مگر آج نہیں ۔ چنانچہ ہمیشہ نمبر 2 پوزیشن بارے ابہام رہا ۔ 30 اکتوبر 2011 ، لاہور کا جلسہ عمران خان سیاست میں گیم چینجر بنا ۔ حیرت کہ بڑے جلسہ کے بعد بھی بڑا سیاستدان شامل نہیں ہو رہا تھا ۔ درجنوں معروف سیاستدانوں کی فہرست بنائی اور ملاقات کی ٹھانی ۔ ایک نمایاں نام شاہ محمود قریشی کا، دعوت لیکر انکے گھر پہنچا ۔ طویل نشست کے بعد جب شاہ صاحب نے آمادگی ظاہر کی تو شرط منسلک کہ’’میں نمبر 2 یعنی کہ جانشین بنوں گا‘‘۔ اگرچہ عمران خان نے مجھے شاہ صاحب کو پنجاب تک محدود رکھنے کا اجازت نامہ دیا ، بالآخر زچ ہوکر میں نے شاہ محمود کو وائس چیئرمین کا عہدہ سونپ دیا۔ واپس آکر عمران خان کے گوش گزار کیا ، وہ بھنائے ضرور مگر مان گئے ۔ اس پیرائے میں چند سال پہلے الیکشن 2008 کا احاطہ ضروری ، عمران خان نے انتخابات کا جب بائیکاٹ کیا تو عملاً سیاست ختم کر چکے تھے ۔ مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں، موصوف کا خیال کہ ن لیگ سے اتحاد کئے بغیر سیاست آگے بڑھانا ممکن نہیں ۔ 2009 میں بہت مرعوب نظر آئے تو سختی سے اس بیانیہ کو توڑا ۔ اپریل 2008 میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے مرکز اور پنجاب میں اتحادی حکومتیں بنائیں تو لامحالہ اپوزیشن کی SLOT خالی ہوگئی تھی۔ میری نظریں اس SLOT پر تھیں ۔ باآسانی ملنے کو تھی ۔ 2011 کے اختتام تک عمران خان ملک کی بڑی اپوزیشن پارٹی بن کر اُبھرے تو مجھے قطعاً حیرت نہ تھی ۔
عمران خان فیملی کی سرشت غیرسیاسی ، چنانچہ 30 اکتوبر 2011 کےجلسہ سے پہلے بہنوں کی سیاست سے لاتعلقی سمجھ میں آتی ہے ۔ لاہور جلسہ سے سیاسی مقبولیت سامنے آئی توجوش فطری بات، علیمہ خان متحرک اور پارٹی سیاست میں بڑھ چڑھ کر دخل انداز ہوئیں۔ جبکہ عمران خان موروثی سیاست سے کنارہ کش، ہر ایسی دخل اندازی کو ناپسند فرماتے تھے ۔ 2013 میانوالی کے ضمنی الیکشن پر علیمہ خان کی الیکشن لڑنے کی خواہش سامنے آئی تو عمران خان نے سختی سے رد کر دی ۔ 2014 کا دھرنا ہوا تو گو بہنیں موجود ، جو اب ہر سیاسی مہم جوئی میں ساتھ ساتھ تھیں مگر عملی سیاست کی گنجائش لاموجود تھی ۔ 2018 میں جب وزیر اعظم بنے تو فیملی حکومت سے لاتعلق تھی، حکومت اور اپوزیشن دونوں جگہ فیملی کو کہیں اسپیس نہ ملی کہ عمران خان نے حوصلہ افزائی ہی نہ کی ۔ 5 اگست 2023 عمران خان پابند سلاسل ہوئے تو علیمہ خان نے اٹک جیل اور بعد ازاں اڈیالہ جیل کے باہرجب میڈیا INTERACTION رہا ، تو بھائی کی ہمدردی اور جیل، فکر و فاقہ پر شد و مد سے تلملاتی نظر آئیں ۔ علیمہ خان نے ہمیشہ بتایا کہ’’ہمارا کوئی رول سیاسی نہیں ہے ‘‘مگر گاہےگاہے سیاسی رول ہی سامنے آیا ، سیاسی حکمت عملی میں بھی حصہ ڈالتی رہیں ۔ دو رائے نہیں کہ عمران خان نے جہاں پارٹی قیادت کو مفاہمت کا بیانیہ دیا، وہاں فیملی مخاصمت کا بیانیہ پروان چڑھا رہی تھی ۔ مفاہمت کا مخالف PTI سوشل میڈیا اور پارٹی ورکرز سپورٹرز کا علیمہ خان کے پیچھے صف بند ہونا عین فطری عمل تھا ۔
علیمہ خان کا PTI سیاست پر چھا جانا ، عمران خان کے پسند ناپسند سے قطع نظر ایک فطری عمل ہے ۔ علیمہ خان کو دو سال میں جتنی میڈیا کوریج اور پروجیکشن ملی ہے اسکا منطقی نتیجہ کہ قیادت منتقل ہو چکی ہے ۔ ایسے مواقع بھی کہ دن رات میڈیا کوریج ملتی رہی ۔ اسٹیبلشمنٹ کی بھی اپنی منطق ، علیمہ خان کی بنفس نفیس ایسی گرفتاری ہوئی جسکی کوئی تُک نہیں تھی ۔ اب بلاجواز اسکے دو بیٹوں کی گرفتاری ، علیمہ خان کے حقوق جانشینی اور سیاست کو مستحکم ہو چکی ہے ۔ دوبیٹوں کی گرفتاری پر PTI سوشل میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا ، کسی گرفتاری پر ایسی میڈیا کوریج دیکھنے میں نہ آئی تھی ۔ حسان خان کو 10 سال سزا ہوئی مگر سوشل میڈیا اور تحریک کی سرد مہری دیدنی تھی ۔ علیمہ خان نے مجال ہے دو سال میں حسان خان کا نام لیا ہو ۔ اب جبکہ اپنے بیٹوں کی گرفتاری ہوئی تو حسان کا نام ساتھ لینا پڑا ۔ مجھے ادارہ کے ایک سینئر افسرنے علیمہ خان کی عمران خان سے گفتگو بتانے کی کوشش کی جس میںوہ عمران خان کو بتارہی ہیںکہ حسان خان کوPMLN نے بذریعہ حفیظ اللہ نیازی پلانٹ کر رکھا ہے ۔ حسان خان کو جب دس سال کی سزا ہوئی تھی تو ایک کزن کا میرے جاننے والوں کے سامنے کہنا کہ والد دس سال سزا دلوا کر اپنے بیٹے کی امیج بلڈنگ کروا رہا ہے ۔
اب جبکہ میری کتاب میں علیمہ خان باقاعدہ نمبر ون لیڈر ہیں ، انکی جانشینی میں پارٹی انتشار اور باہمی بداعتمادی نے فروغ پانا ہے ۔ البتہ ! عمران خان کے ماننے چاہنے والے علیمہ خان کی ڈیفیکٹو قیادت میں متحد و متفق ہیں ۔ عمران خان جیل میں موجود، قیادت کا خلا نمایاں تھا ، جو اب پُر ہو چکا ۔ اسٹیبلشمنٹ کی تدبیر یا بدتدبیر ، وقت بتائے گا ، علیمہ خان اسٹیبلشمنٹ کیلئے مزید مشکلات پیدا کریں گی یا فائدہ مند رہیں گی ۔ بات حتمی! اب علیمہ خان سے جانشینی واگزار کروانا ممکن نہیں رہا ۔ آج سوال یہ نہیں کہ عمران خان جانشین چاہتے ہیں یا نہیں ، بلکہ سوال اتنا کہ وہ’’بہ امر مجبوری جانشین کو قبول کر پائیں گے‘‘؟