• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خاتم الانبیارحمۃ للعالمین محمد عربی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بلاشبہ ہر حوالے سے انسانی تاریخ کی عظیم ترین ہستی ہیں۔ آپ ؐ سے پہلے آنے والے تمام نبیوں نے اپنی امتوں کو قافلہ انسانی کے ایسے قائد کی حیثیت سے آپؐ کی آمد کی بشارت دی جس کی قیادت و سیادت زمان و مکان کی قید سے بالاتر ہوگی۔ پچھلی تمام آسمانی کتابوں میں آخری نبی کی حیثیت سے آپؐ کی آمد کی خبر دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ آپؐ کے ہاتھوں دنیا میں وہ انقلاب برپا ہوگا جس کے نتیجے میں انسان پر سے انسان اور اس کے تراشے ہوئے جھوٹے خداؤں کی خدائی کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا ۔ اور دنیانے دیکھا کہ منصب رسالت پر فائز ہونے کے بعد آپؐنے تن تنہا لا اِلٰہ الا اللّٰہ کی صدا بلند کرکے مکہ مکرمہ کی بے آب و گیاہ سرزمین کے باسی اپنی قوم کے لوگوں سے کہا ’’یہ ایک کلمہ اگر تم مجھ سے قبول کرلو تو اس کے ذریعے سے تم سارے عرب کو زیر نگیں کرلوگے اور سارا عجم تمہارے پیچھے چلے گا ‘‘۔ اور اِس ہستی کی محض سوا دو عشروں کی جدوجہد کے نتیجے میں پورا عرب سینکڑوں جھوٹے خداؤں کے سامنے سر جھکانے کی ذلت سے آزاد ہو کرکائنات کے حقیقی فرماں روا کے دامن رحمت سے وابستہ ہوگیا جبکہ روم و ایران جیسی اپنے وقت کی سپرپاورزبھی‘ جہاںانسان اپنے جیسے انسانوںکے خدا بنے بیٹھے تھے‘ نبی عربیؐ کے فرمان کے عین مطابق کلمہ لا اِلٰہ الا اللّٰہ کے مقابلے میں سرنگوں ہوگئیں۔ عہد نبویؐ اور خلافت راشدہ پر مشتمل انسانی تاریخ کے اس مبارک ترین دور میں زندگی کا ہر شعبہ جہل کی گرفت سے نکل کر علم کی روشنی سے منور ہوا۔ امیر و غریب، طاقتور اور کمزور سب یکساں طور پر قانون الٰہی کے تابع قرار پائے۔ ایک ہزار سال تک اس نظام کے علمبردار پوری انسانی برادری کے قائد و پیشوا رہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمزوریاں رونما ہوئیں تو خدائی قانون کے مطابق قافلہ انسانی کی قیادت دنیاوی اعتبار سے اہل تر انسانی گروہوں کے سپرد ہوئی اور مسلم دنیا بتدریج ان کے زیر تسلط آتی چلی گئی۔عملی غلامی کے ساتھ ذہنی غلامی بھی مسلمانوں کا مقدر بنی۔ تاہم بادشاہت کے بجائے عوامی حکمرانی کے دعووں کے ساتھ میدان میں آنے والا جدید مغربی نظام بھی‘ سیاست ومعیشت اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں عام آدمی کی حقیقی فلاح کا ذریعہ ثابت نہیں ہوا اور سرمایہ داری کا خود غرض عفریت آج دنیا کا اصل حکمراں ہے۔دنیا کے بیشتر وسائل چند ہاتھوں میں سمٹ گئے ہیں اور دولت کا یہ اِرتکاز ہوشربا رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ یوں خاتم الانبیاؐ کے دورکے ڈیڑھ ہزار برس بعد آج دنیا پھر اُسی کیفیت سے دوچار ہے جسے قرآن نے بحرو بر میں لوگوں کے اپنے اعمال کے سبب پھیل جانے والا فساد قرار دیا تھا۔ انسانیت اِس فساد کے خاتمے کیلئے پھر ایسے نظام کی منتظر ہے جس میں سب ایک خدا کے قانون کے پابند ہوں اور دنیا میں حقیقی عدل و مساوات کا دور دورہ ہو۔ لیکن اس کام کیلئے اب کسی نبی کو نہیں آنا۔ختم المرسلین ؐ یہ فریضہ اپنی امت کے سپرد کرگئے ہیں لیکن افسوس کہ کرۂ اَرض پر واقع ساٹھ مسلم مملکتوں میں سے کسی ایک میں بھی عملاً یہ نظام نافذ نہیں۔ اپنے فرضِ منصبی سے یہ غفلت ہی مسلمانوں کی دنیا میں بے وقعتی کا اصل سبب ہے۔ ہم آج بھی اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو قرآنی احکام اور سنت نبویؐ کے مطابق آخرت کی جواب دِہی کے احساس کی بنیاد پر استوار کر لیں تو ہمارے معاشروں سے ظلم، حق تلفی، کرپشن، ناجائز منافع خوری، رشوت، وعدہ خلافی، جھوٹ، منافقت، بے حیائی اور جنسی بے راہ روی سمیت تمام برائیاں ختم ہوسکتی، عزت و سرفرازی کی راہیں کشادہ ہوسکتی اور مسلم معاشرے پوری انسانی دنیا کے لیے ایک بار پھر مثالی ماڈل بن سکتے ہیں۔تاہم یہ منزل محض حُبِّ نبیؐ کے دعووں سے نہیں نبیؐ کی تعلیمات پر عمل ہی سے حاصل ہوسکتی ہے اور پوری دنیا کے مسلمانوں کیلئے یہی سیرت نبویؐ کا اصل پیغام ہے۔

تازہ ترین