• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: کرن نعمان

ماڈل: صبا اقبال

ملبوسات: مظہر علی کلیکشن

آرائش: دیوا بیوٹی سیلون

عکاسی: عرفان نجمی

لےآؤٹ: نوید رشید

لباس محض جسم کو ڈھانپنے کا ذریعہ نہیں، یہ کسی بھی انسان کی شخصیت کا پہلا تعارف ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص ہم سے ملتا ہے، تو گفتگو سے پہلے ہمارے لباس ہی سے ہماری پسند، ذوق اور شخصیت کا نقشہ کھینچ لیتا ہے، پھر لباس حیا، وقار اور تہذیب کی بھی آئینہ داری کرتاہے۔ 

یہ نہ صرف ہمیں موسموں کی سختیوں سےمحفوظ رکھتا، جسم وجاں کوسُکون و راحت بخشتا ہے، بلکہ ہمارےطرزِحیات کا بھی بہترین عکّاس ہوتا ہے۔

ہمارے یہاں موسمِ گرما کے آغاز ہی سے بازاروں میں ہلکے، نرم اور خوش رنگ کپڑوں کی گویا بہار سی آجاتی ہے کہ اب پاکستانی لان، کاٹن کا تو شاید پوری دنیا میں کوئی نعم البدل نہیں۔ 

اس کی نزاکت، نرمی اور اعلیٰ معیار اپنی مثال آپ ہے۔ ہاتھ میں آنے پر کپڑے کی لطافت محسوس ہوتی ہے اور بدن پر پہننے سے اس کا خنک لمس، گرمی کے احساس کو بہت حد تک کم کر دیتا ہے۔ 

ایسا نہیں کہ دیگر ممالک کچھ تخلیق نہیں کر رہے، دنیا بَھر میں ایک سے ایک فیبرک بنایا اور پہناجا رہا ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جس معیار کی نرم و ملائم لان پاکستان میں دست یاب ہے، وہ خال ہی کہیں اور میسّر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال گرمیوں کے آغاز ہی سےخواتین لان کے نت نئے پرنٹس، ڈیزائنز اور ایک سے بڑھ کر ایک رنگ و انداز کے استقبال کےلیے کمر کس لیتی ہیں، بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث، جب سے موسمِ گرما کے دورانیے میں اضافہ ہوا ہے، تو بیش تر ڈیزائنرز، برانڈز تو سال کے چھے ماہ لان، کاٹن ہی پرمختلف النوع تجربات میں مصروفِ عمل دکھائی دیتے ہیں۔

شلوار قمیص ہماری تہذیب و ثقافت کا ناگزیر حصّہ ہے اور عموماً اِسی انداز میں کچھ نہ کچھ جدّت و ندرت لائی جاتی رہتی ہے۔ کبھی چھوٹی قمیصیوں کے ساتھ گھیردار شلواریں، ٹراؤزرز کے ساتھ پیپلم یا فراکس، لانگ شرٹس کے ساتھ اسٹریٹ ٹراؤزرز، چُوڑی دارپاجاموں کے ساتھ کُرتا نما شرٹس یا انگرکھے اور پھر اِن دنوں، میکسیزاور فرشی شلواریں بھی فیشن میں خوب ہی اِن ہیں اور جب یہ بھانت بھانت کے رنگ و انداز پاکستانی لان سے تیار ہوں تو پہننے کا لُطف دوبالا نہیں، سہہ بالا ہوجاتا ہے۔ 

یہاں تک کہ اب تو تقریباتی پہناوے تک لان فیبرک ہی سے تیار کیے جارہے ہیںاور اس ضمن میں رنگوں کی بھی کوئی قید نہیں۔ سفید، گلابی، فیروزی، لیمن، آسمانی، کاسنی، پِیچ، بیج، دھانی، اسکن، فون اور آف وائٹ جیسے نرم، ٹھنڈے رنگ ہی منتخب نہیں کیے جاتے، بلکہ سیاہ، آتشی، سُرخ، عُنّابی، چاکلیٹی، پیرٹ گرین، نارنجی اور جامنی جیسے تیز، شوخ رنگوں میں بھی ایک سے ایک عمدہ لباس تیار ہورہا ہے۔ لان کپڑے کی یہ قبولیتِ عام صرف یہیں تک محدود نہیں، بیرونِ مُلک بھی پاکستانی لان کے چاہنے والے بے شمارہیں۔ تب ہی توعالمی مارکیٹ میں لان کے یہ ڈریسز ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں اور پاکستان کی پہچان، فخر کا نشان ہیں۔

پوشاک تو وجودِ انسانی کے ساتھ لازم و ملزوم ہے ہی، مگرملبوسات کے ساتھ ایسے لوازمات کا انتخاب بھی شخصیت کو چار چاند لگا دیتا ہے کہ جو نہ صرف دیدہ زیب ہوں بلکہ مفید تر بھی اورسن گلاسز کا شمار ایسی ہی ایکسیسریز میں ہوتا ہے۔ 

دھوپ کے چشموں کا استعمال، آنکھوں کی حفاظت، دھوپ اور گردوغبار سے بچاؤہی کےضمن میں سُودمند نہیں، یہ شخصیت کے اعتماد اور فیشن کا بھی استعارہ ہے۔ سخت دھوپ کی صُورت میں آنکھوں میں پڑنے والی تیز، براہِ راست روشنی نہ صرف بینائی متاثر کرتی ہے بلکہ تھکن کا احساس بھی بڑھا دیتی ہے۔

ایسےمیں سن گلاسزہمارے ’’برقی قمقموں‘‘ کے لیے گویا ایک محافظ کا کام کرتے ہیں۔ آج کل مارکیٹ میں سن گلاسز کے بےشمار اسٹائل دست یاب ہیں۔ کیٹ آئی، اوور سائز، ایوی ایٹر اور راؤنڈ فریم وغیرہ۔ اگر آپ نے روایتی شلوار قمیص زیبِ تن کررکھی ہو، تو ہلکے رنگ کا اوور سائز فریم ایک نفیس امتزاج کا تاثر دے گا۔ لیکن اگرمغربی اندازکا لباس منتخب کیا گیا ہے، تو ایوی ایٹر یا رِم لیس ڈیزائن جدّت و ندرت اور پُراعتماد شخصیت کا لُک دیتے ہیں۔ 

یوں لباس چاہےوہ ہمارے ثقافتی وَرثے کا عکّاس ہو یا جدید اندازکا،اُس کے ساتھ مناسب سن گلاسز شخصیت کوبہت پُرکشش بناتے، حُسن و دل کشی کو دوچند کردیتے ہیں۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ لباس اور سن گلاسز کا انتخاب ہماری ذہنی کیفیت پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ ایک خوش رنگ لباس اور اسٹائلش گلاسزفریم کا انتخاب نہ صرف دیکھنے والے کو متاثرکرتا ہے بلکہ پہننے والے کو بھی بہت مثبت توانائی بخشتا ہے۔ ایک خُوب صُورت، دلآویز، شخصیت سے سو فی صد ہم آہنگ لباس کےساتھ، مناسب سن گلاسز کے امتزاج سےلیس ہوکرجیسے ہی آپ آئینے میں اپنا عکس دیکھتے ہیں، سرتاپا خُوشی ومسرت، راحت و فرحت، خُود پر یقین و اعتماد کے احساس سے لب ریز ہوجاتے ہیں اور پھر یہ توانا احساس آپ کے پورے دن کو بہت حسین و خوش گوار بنا دیتا ہے۔

چلیں، اب ذرا آج کی بزم پر نگاہ ڈالے لیتے ہیں کہ جو پہناووں اور ایکسیسریز کی شخصیت، ماحول، موسم اورفیشن سے سو فی صد ہم آہنگی لیے ہوئے ہے۔ ذرا دیکھیں تو لان فیبرک میں مسٹرڈ، پِیچ اور اسکائی بلیو جیسے خالص سمر کلرزمیں تین روایتی تِھری پیس پہناووں کی بہار ہے، تو ساتھ آتشی گلابی رنگ میں مشین ایمبرائڈری کےخُوب بَھرے بَھرے تقریباتی لباس کا بھی جلوہ ہے اور ایک کسی حد تک مغربی لُک (اسکرٹ، بلاؤز) بھی ہے۔ پہناووں کے ساتھ چُنری اسٹائل اسٹالرز لگّا کھا رہے ہیں، تو جدید انداز سن گلاسز کی دلآویزی تو گویا جوبن پر ہے۔ 

پاکستانی معاشرت میں جہاں ثقافت و روایت کو اہمیت حاصل ہے، وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ لباس اور فیشن کے انتخاب میں بھرپور توازن رکھاجائے۔ نہ صرف ظاہری حُسن پیشِ نگاہ رہے، مکمل شخصیت، موسم اورموقع محل بھی ہمیشہ ذہن میں ہو۔ کیژول مصروفیات ہوں، یا کسی رسمی تقریب میں شرکت کا ارادہ، لباس اور سن گلاسز کا درست امتزاج بہرحال لازم ہےکہ ہمارا پہناوا ہی نہیں، ایکسیسریز بھی ہمیں دوسروں کی نظروں میں منفرد بناتی ہیں تو خُود اپنی نظر میں بھی خاصا معتبرو پُروقار کردیتی ہیں، خصوصاً گلاسز کے انتخاب میں تو بہت ہی احتیاط برتی جائےکہ اِن کا کام محض تپتی دھوپ میں راحت دینا ہی نہیں، شخصیت کی روشنی میں بھی اضافہ کرنا ہے۔ اوراِن رنگ و انداز سےمزیّن ہو کے حُسن و دل کشی، نُدرت وانفرادیت کےاحساس سےسرشاری یقینی ہے۔ وہ کسی نے کیا خُوب کہا ہے ؎ خُوش رنگ و خُوش نگاہ، خُوش اندام، خُوب رُو… پھیلے ہوئے ہیں شہر میں قاتل جگہ جگہ۔

سنڈے میگزین سے مزید
جنگ فیشن سے مزید