• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ نے اکثر تعزیتی اجلاسوں میں یہ جملہ کئی مرتبہ سنا ہوگا کہ مرحوم اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ کچھ شخصیات کی برسی پر شائع ہونیوالے کالموں میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مرحوم ایک عہد ساز شخصیت تھے اور اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے۔ اس قسم کے توصیفی جملے ہم مرحومین کیلئے زیادہ سنتے ہیں کیونکہ بڑے لوگ جب زندہ ہوتے ہیں تو ہم انہیں چھوٹا کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔

آج میں ایک ایسی شخصیت کو اپنی ذات میں انجمن اور ایک ادارہ قرار دینا چاہتا ہوں جو خوش قسمتی سے زندہ ہے اور اُس کے قد کو چھوٹا کرنے کی کوشش بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ اس شخصیت کا نام عطاء الحق قاسمی ہے۔قاسمی صاحب کے لئے اپنی ذات میں انجمن اور ادارہ کا لفظ بھی چھوٹا ہے۔عطاء الحق قاسمی دراصل ایک عہد کا نام ہے۔ مجھے اُن کے صحافتی اور ادبی قد کی تفصیل بیان کرنے کے لئے زیادہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ وہ آج کے دور میں اردو صحافت کے سب سے بڑے کالم نگار ہیں۔جو لوگ اُن سے سیاسی و نظریاتی اختلاف رکھتے ہیں وہ بھی انہیں ایک بڑا کالم نگار تسلیم کرتے ہیں۔

گزشتہ شام ہمارے ایک شاعر دوست عزیر احمد نے عطاء الحق قاسمی صاحب کے اعزاز میں تقریب پذیرائی کا اہتمام کیا تھا۔قاسمی صاحب اُس مقام تک پہنچ چکے ہیں جہاں انہیں کسی اعزاز یا پذیرائی کی ضرورت نہیں رہی۔ اب تو ریاست انہیں نشان امتیاز سے نواز کر اپنے اعزازات کی کھوئی ہوئی عزت بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔عزیر احمد کی طرف سے منعقد کی گئی تقریب میں مجیب الرحمان شامی صاحب بتا رہے تھے کہ 1967ء میں وہ اخبار جہاں سے وابستہ تھے۔ کراچی یونیورسٹی کے پاس بسیں نہیں تھیں۔ کراچی یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس یونین کے عہدیدار شامی صاحب کے پاس آئے کہ کسی طرح ہمارا مسئلہ ارباب اختیار تک پہنچا دیں۔ یہ ون یونٹ کا زمانہ تھا۔ ایک یونٹ مشرقی پاکستان تھا اور دوسرامغربی پاکستان تھا۔ مغربی پاکستان کے گورنر جنرل موسیٰ خان تھے جو لاہور میں رہتے تھے۔ کراچی یونیورسٹی کی فریاد ارباب اختیار تک پہنچانے کے لیے شامی صاحب نے تجویز دی کہ عطاء الحق قاسمی سے کالم لکھوایا جائے۔شامی صاحب کراچی یونیورسٹی کے ایک اسٹوڈنٹ لیڈر کے ساتھ کراچی سے لاہور آئے۔ عطاء الحق قاسمی کو مل کر کراچی یونیورسٹی کے ہزاروں طلبہ و طالبات کا مسئلہ انہیں بیان کیا اور یوں قاسمی صاحب نے کالم لکھ دیا۔

اب ذرا سوچیے کہ آج سے نصف صدی قبل عطاء الحق قاسمی اتنے بڑے کالم نگار تھے کہ مجیب الرحمان شامی جیسا صحافی اُن تک ایک مسئلہ پہنچانے کے لیے کراچی سے چل کر لاہور آیا۔ اس تقریب میں سہیل وڑائچ نے بھی ببانگ دہل اعتراف کیا کہ آج کے دور میں اصلی کالم صرف عطاء الحق قاسمی لکھتے ہیں۔ ہماری تحریر تو عام طور پر سیاسی تبصرہ یا تجزیہ ہوتی ہے لیکن جو طنز و مزاح اور شگفتگی قاسمی صاحب کی تحریر میں ہے وہ کسی دوسرے کی تحریر میں نہیں ہے۔ اس بات کی تائید میرے ساتھ ہی بیٹھے حفیظ اللہ نیازی نے زور زور سے اثبات میں سر ہلا کر کی۔ زیر نظر تحریر کا مقصد عطاء الحق قاسمی کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانا نہیں بلکہ یہ اعتراف کرنا ہے کہ میں اُن خوش قسمت لوگوںمیں شامل ہوں جو عطاءالحق قاسمی کے عہد میں زندہ ہیں۔ میں نے اپنے اسکول کے زمانے میں قاسمی صاحب کا کالم پڑھنا شروع کیا اور جب میں خود حادثاتی طور پر کالم نگار بنا تو جن سینئرز نے میری بہت حوصلہ افزائی کی اُن میں قاسمی صاحب سب سے آگے تھے۔

قاسمی صاحب صرف ایک کالم نگار نہیں بلکہ ایک صاحب طرز شاعر اور ڈرامہ نگار بھی ہیں۔ اُن کے کچھ اشعار روز مرہ زندگی میں محاوروں کی طرح استعمال ہوتے ہیں۔ شہباز شریف جب اپوزیشن میں تھے تو اپنی تقریروں میں قاسمی صاحب کے اس شعر کو بہت استعمال کرتے تھے’’خوشبوؤں کا ایک نگر آباد ہونا چاہیے...اس نظام زر کو اب برباد ہونا چاہیے‘‘ایک اور موقع پر سپریم کورٹ میں کسی مقدمے کی سماعت کے دوران ایک وکیل نے جج صاحب کے سامنے یہ شعر پڑھ دیا’’ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں....عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہئے‘‘شعر سن کر جج نے پوچھا یہ کس کا شعر ہے؟ وکیل نے بتایا:مائی لارڈ یہ جناب عطاء الحق قاسمی کا شعر ہے۔ جج نے پوچھا کیا وہ شاعری بھی کرتے ہیں؟ وکیل نے کہا کہ جی ہاں وہ شاعر بھی ہیں۔ جج نے کہا اچھا، میرا تو خیال تھا وہ’’مولانا ڈیزل‘‘جیسے کالم لکھتے ہیں اور پھر انہیں نواز شریف ناروے میں سفیر بنا دیتے ہیں۔جج نے پوچھا آج کل وہ کیا کرتے ہیں؟ وکیل نے کہا کہ مائی لارڈ، آج کل وہ پاکستان ٹیلی و یژن کے چیئرمین ہیں۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ کچھ دن کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے از خود نوٹس لے کر عطاء الحق قاسمی کی بطور چیئرمین پی ٹی وی تقرری کے خلاف سماعت شروع کردی۔ اُس وقت مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی۔ حکومت کی وزیر اطلاعات قاسمی صاحب سے خوش نہ تھیں، سیکرٹری اطلاعات نے بھی عدالت میں اُن کا مؤثر دفاع نہ کیا۔ اس دوران حکومت بدل گئی۔ نومبر 2018ءمیں سپریم کورٹ نے نہ صرف اُن کی چیئرمین پی ٹی وی کے طور پر تقرری ناجائز قرار دی بلکہ اُن سے تنخواہ اور مراعات کی مد میں 19 کروڑ 78 لاکھ روپے واپس لینے اور آئندہ کسی سرکاری عہدے پر تقرری کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ قاسمی صاحب کی تنخواہ صرف 15 لاکھ روپے ماہانہ تھی لیکن جج نے انہیں اس پروگرام کے ایئر ٹائم کے اخراجات بھی ادا کرنے کا حکم دیا جس کی میزبانی قاسمی صاحب کرتے تھے۔ اس مقدمے میں پرویز رشید، اسحاق ڈار اور فواد حسن فواد پر بھی جرمانہ عائد کیا گیا کیونکہ وہ تقرری میں شامل تھے۔ یہ فیصلہ محض ایک شخصی اور ذاتی عناد کا اظہار تھا۔ پھر حکومت بدل گئی۔ قاسمی صاحب نے نظرثانی کی اپیل دائر کی اور سابقہ فیصلہ واپس ہو گیا۔ آج کسی کو یاد نہیں کہ جس جج نے ایک فیصلے کے ذریعے قاسمی صاحب کا قد چھوٹا کرنے کی کوشش کی وہ کون تھا؟ قاسمی صاحب کے اعزاز میں تقریب ختم ہوئی اور شرکاء نے اُن کے ساتھ سیلفیاں بنوانا شروع کیں تو میں اپنے وقت کے اُن فرعونوں کے انجام پر مسکرا رہا تھا جنہوں نے قاسمی صاحب کو رسوا کرنے کی کوشش کی لیکن خود رسوائی کا نشان بن گئے۔ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ انسانوں کو فرعون نہیں بننا چاہئے۔ اللّٰہ تعالیٰ قاسمی صاحب کو صحت و تندرستی عطا فرمائے (آمین)۔

تازہ ترین