یہ 1929ءکی بات ہے دریائے سندھ نے نوشہرہ اور اسکے قریب پہاڑوں تک کو روند دیا، تباہی اور سیلاب کی شدت ہر اندازے سے زائد تھی ، انگریز حکمران بھی حیران رہ گیا کہ آخر یہ سب یکایک کیسے ہو گیا ۔ انگریز ماہرین پر مشتمل ٹیم قائم کی گئی جو دریا کے ساتھ ساتھ اس کے منبع کی جانب پیدل اور خچروں پر سفر کرتی رہی ، اس ٹیم نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ہمالیہ پر پہاڑوں کے سرکنے سے دریا بند ہو گیا اور ایک بہت بڑا ’’قدرتی ڈيم‘‘وجود پا گیا جب پانی کا دباؤ بہت بڑھا تو یہ پہاڑ یکدم اپنی جگہ چھوڑ گئے اور اس’’قدرتی ڈيم‘‘ نے یک لخت سارا پانی چھوڑ دیا۔ سیلاب نے تباہ کن تو ہونا ہی تھا ، اور اہل نوشہرہ کے ذہنوں پر 1929ءایک تلخ یاد بن کر رہ گیا ، وقت کا پہیہ چلتا گیا ، کالا باغ ڈيم کی تعمیر کیلئے ابتدا کی گئی ، نچلے درجے کے ملازمین پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی کہ وہ 1929ءمیں جہاں تک سیلاب آیا تھا ان جگہوں کی نشان دہی کریں ، ان ملازمین نے نشان دہی کیلئے مقامی افراد سے رابطہ کیا ، مقامی افراد نے یہ تو پوچھنا ہی تھا کہ سرکار یہ نشان دہی کیوں کرا رہی ہے ؟ ان کو ان ملازمین نے اپنی سمجھ کے مطابق جواب دیا کہ یہاں پر ڈیم کی تعمیر ہونی ہے اور پانی ان نشان زدہ علاقوں تک پہنچ جائے گا ۔ لوگوں کے پاؤں تلے زمین نکل گئی ، 1929ءکے مناظر آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے ، نتیجہ کیا ہونا تھا؟ مخالفت ۔ اب سرکارجو مرضی کہے مگر جو خوف عوام میں سرایت کر چکا سو کر چکا ۔ سندھ پنجاب پانی کے اختلاف پر تصور یہ کیا جاتا ہے کہ جیسے یہ قیام پاکستان کے بعد سندھ طاس معاہدہ کا شاخسانہ ہے ۔ مگر یہ حقیقت نہیں ، پنجاب اور سندھ کے درمیان پانی کے تنازع کا آغاز 1935 میں ہوا اور اسکی بھی ایک مکمل تاریخ ہے ۔ سلطان غیاث الدین تغلق دہلی کا وہ پہلا حکمران تھا جس نے برساتی نہریں کھدوانے کا آغاز کیا ، پھر فیروز تغلق نے اس پر بہت کام کیا اور اس نے خاص طور پر ملتان کے علاقے میں اس پر بہت توجہ دی ۔ لودھی حکمران بھی نہریں کھدواتے رہے اور مغل سلطنت میں تو اس پر بڑے پیمانے پر کام ہوا ، بادشاہ جہانگیر نے دریائے راوی پر لاہور اور گردو نواح کو سیراب کرنے کیلئے 80 کلو میٹر طویل نہر بنوائی جس کا مرکز ہرن مینار کا مقام تھا ۔ مغلوں کےبعد انگریزآگئے ۔ اب تک جو بھی نہری نظام قائم کیا گیا تھا وہ صرف برساتی سیلابی نہروں کا تھا جو ہر سال بھل کی وجہ سے صاف کرانی پڑتی تھیں اور اس پر زر کثیر خرچ ہوتا تھا ۔ گورنر جنرل لارڈ ہاسٹنگ نے 1818ءمیں مغل دور کی نہروں کی تعمیر نو کا حکم جاری کیا ۔ دنیا جدید ہو رہی تھی اور پانی کو قابو پانے کے طریقے جان گئی تھی ۔ اس لئے معاملہ صرف سیلابی نہروں کی تعمیر نو تک محدود نہ رہا ۔ 25 نومبر 1847 کو سہارن پور کے نزدیکی قصبہ ڑوڑ کی میں برصغیر کا پہلا سول انجینئرنگ کالج اسی مقصد کیلئے قائم کیا گیا اور اس کی خاص بات یہ تھی کہ اپنے قیام سے 1870 تک یہ سول انجینئرنگ کی مکمل تعلیم اردو میں مہیا کرتا تھا ۔خیال رہے کہ انگریز نے اس خطے کی زرخیزی سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ان نہروں کی بدولت جو کاشت کاری بڑھی تو مانچسٹر کے اکثر کارخانوں کا دارومدار یہیں کے خام مال پر تھا ۔ پھر نہریں ، ہیڈ ورکس ، بیراج ، ہیڈ ریگولیٹرز بنتے چلے گئے۔ 1923ءمیں سکھر بیراج پر کام شروع ہوا جو 1932 ءتک چلا ۔ جب پانی کو کم زیادہ کیا جانے لگا تو یہ سندھ کے کاشت کار کیلئے ایک نئی صورتحال تھی ۔ زیریں سندھ میں پانی کی کمی بھی محسوس کی گئی ، پانی کی مستقل تقسیم ایک نئی طرز کا معاملہ 1935ءمیں ہی پنجاب اور سندھ کو درپیش آگیا۔کمیٹیاں بننے لگیں ، آزادی کے بعد 1968ءمیں اختر حسین کمیٹی ، 1970 ءمیں فیصل اکبر کمیٹی اور 1977ءمیں اعلی ٰعدلیہ کمیشن جسٹس علیم اور جسٹس فضل حق کا قائم ہوا مگر معاملہ نہ طے ہو سکا۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ 1950ءسے 2005 ء تک پنجاب کے زیر کاشت رقبے میں 66فیصد اضافہ ہوا جبکہ سندھ کا رقبہ 23 فیصد سے کم ہو کر 14 فیصد رہ گیا ۔ سندھ میں 1950 ءتک چاول کی کاشت کا رقبہ 50 سے 60فیصد تھا جو 2005 ءتک 22فیصد رہ گیا،کپاس کی پیدا وار میں پنجاب میں اضافہ جبکہ سندھ میں کمی ہوئی ۔ لیکن گنے کی پیدا وار میں پنجاب میں 13فیصد کمی اور سندھ میں 22 فیصد اضافہ ہوا ۔ سندھ کے حوالے سے یہ بہت خوفناک صورتحال ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ اس کی وجہ پنجاب کو پانی کی زیادہ فراہمی ہے ۔ پاکستان کی تاریخ میں 1973ءکے آئین کی منظوری اور 1991ء میں نواز شریف دور میں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے معاہدے کی یکساں اہمیت و افادیت ہے ، پنجاب کا زیر کاشت رقبہ 25 ملین ایکڑ ہے جبکہ سندھ کا زیر کاشت رقبہ گیارہ اعشاریہ پانچ ملین ایکڑ ہے لیکن پنجاب کم و بیش چون اعشاریہ چالیس ملین ایکڑ فٹ پانی استعمال کرتا ہے جبکہ سندھ تینتالیس اعشاریہ ستر ملین ایکڑ فٹ پانی استعمال کرتا ہے ۔ اس حساب سے سندھ فی ایکڑ 31 فیصد اور زیر کاشت رقبہ کے حساب سے 74 فیصد پانی پنجاب سے زیادہ استعمال کرتا ہے۔خیال رہے کہ اس تقسیم پر تمام صوبوں نے اتفاق کیا تھا ۔ اس گفتگو سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کے پی میں سیلاب کی تباہ کاری جبکہ زیریں سندھ میں پانی کی کمی، کاشت رقبہ اور فصلوں کی فی ایکڑ کمی نے ایک تصور قائم کر دیا ہے کہ اگر کالا باغ ڈیم بنا تو ممکن ہے کہ پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے اور پیدا وار میں کمی ہو جائے ، اب چاہے جو مرضی کہتے رہیں مگر وہاں جذبات اتنے شدید ہیں کہ ابھی ہم نے دیکھا کہ نئی نہروں کی تعمیر کے معاملے پر کیا حالات ہو گئے تھے ۔ اس وقت کسی متنازعہ منصوبہ پر بات کرنے کی بجائے صوبوں بالخصوص پنجاب اور سندھ کو ساتھ بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکالنا چاہئے کہ بار بار کے سیلاب سے کیسے موجودہ وسائل میں رہتے ہوئے محفوظ رہا جا سکتا ہے ۔ در حقیقت اس وقت پاکستان کو پرانے نہری نظام کی جگہ نئے نہری نظام کی ضرورت ہے اور وہ 1991ءکے معاہدے کے عین مطابق ہونا چاہئے ۔