• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئی ربع صدی تک بھٹکنے کے بعد، ہم آدھا ملک گنوا کرحقیقی منزل کی سمت دوگام ہی چلے تھے کہ رستے میں ایک اور دیو مالائی ہستی کا نزول ہوگیا۔ اس نے بزور طاقت ہمارا رخ الٹی سمت موڑ دیا اور یوں ایک دفعہ پھر ہماری منزل کھوٹی ہو گئی ۔ مستقبل کا مورخ ضیاء الحق کے گیارہ سالہ عہد کو ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دور قرار دے گا، جو ہماری معاشرت، تمدن ، رویوں ، اقدار، ترجیحات اور نفسیات پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑ گیا۔ اگر مردِ حق کے ’’ فیوض و برکات‘‘ کو ایک جملے میں سمیٹا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ و ہ ہماری آنے والی نسلوں کی سانسوں میں بھی چنگاریاں بھر گیا اور گلوبل ویلج کی ایک انتہا پسند ،بد عنوان اور غیر متمدن قوم کے طور پر ہماری پہچان ہوئی ۔ آج ہم اس کے چشمہ فیض سے سیاسی شعبے میں حاصل ہونے والی برکات پر بات کریں گے ، جو موجودہ جمہوریت کے حقیقی یا جعلی ہونے کے مباحثہ کی اساس ہیں ۔
اگر پچھلی کوتاہیوں کو بھلا کر 70ء کے عشرے کے ابتدا میں اڑان بھرنے والی جمہوریت کا تسلسل جاری رہنے دیا جاتا تو یقینا آج ہماری تاریخ مختلف ہوتی ۔عوام میں سیاسی شعور پختہ ہو چکا ہوتا ، مسلسل انتخابات کی عوامی چھلنی سے گزر کر بے کار سیاسی کچرا قصہ پارینہ ہو گیا ہوتا اور صرف جینوئن قیادت ہی منظر عام پر رہ جاتی ۔ ہم ترقی پذیر ہی سہی مگر بہتر شرح خواندگی اور شعور کے ساتھ دنیا میں بنیادی سہولتوں کی حامل ایک خوشحال اور مہذب قوم کے طور پر شمار ہوتے ۔ یہ کوئی غیر حقیقی یا خیالی منظر نامہ نہیں ۔ ثبوت زیر نظر ہے کہ آج جن معموروں میں عوامی حاکمیت کی حامل جمہوریت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے ، وہ قومیں انہی راہوں کی مسافت طے کر کے فلاحی ریاستوں کی گل پوش وادیوں میں اتری ہیں۔اگر آج ان کا کوئی وزیراعظم ریفرنڈم ہارنے پر چپ چاپ استعفیٰ دے کر اپنا سامان خود اٹھائے گھر چلا جاتا ہے ، کوئی وزیراعظم سائیکل یا ٹرین میں دفتر جاتا ہے اور کوئی وزیراعظم ٹیکسی ڈرائیور کا بھیس بدل کر عوامی مسائل سے آگاہی حاصل کرتا ہے تو ایسی جینوئن اور اپنے ملک و قوم سے وفادار قیادت اسی مسافت کا ثمر ہے ۔
ذوالفقار علی بھٹو کا کانٹا نکالنے کے بعد 1985ء میں عجوبہ روزگار غیرجماعتی انتخابات منعقد کرائے گئے، جو ہمارے کلچر میں نمایاں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔ اس سے قبل کی ہماری تاریخ آئیڈیل ہر گز قرار نہیں دی جاسکتی لیکن تمام تر خرابیوں کے باوجود اتنا ضرور ہے کہ معاشرے کی ایک محدود اقلیت یعنی کرپٹ ، رشوت خور اور ٹھگ عناصر کو اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھا جا تا تھا۔عوام ایسے عناصر کو اپنے درمیان بٹھا کر کم از کم فخر کا اظہار نہیں کرتے تھے بلکہ انہیں اکثر پبلک مقامات اور اجتماعات میں لوگوں کی اعلانیہ یا غیر اعلانیہ نفرت کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ مراد یہ ہے کہ معاشرتی اقدار اتنی بھی گئی گزری نہیں تھیں کہ حسب و نسب اور کردار کی جگہ دھن دولت وجہ عزو شرف ٹھہرتی ۔ ان انتخابات میں ضیاء الحقی یہ کی گئی کہ سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت ہی کو قومی دھارے سے باہر کردیا گیا ۔ اس کی جگہ اپنی کوزہ گری کے شاہکاروں اور تیسرے درجے کی قیادت پر درجہ اول کی سیاسی قیادت کا لیپ کر کے انہیں قوم پر مسلط کردیا گیا ۔ اس ’’قیادت‘‘ نے ہماری کمزور اخلاقی اقدار اور ملکی وسائل کا یوں تیا پانچہ کیا کہ قومی خزانے پر قابض بائیس خاندان بڑھ کر کئی سو بائیس ہو گئے ۔ قابلیت، شرافت، کردار اور اخلاق کا جنازہ نکل گیا اور سیاست کرپشن اور کاروبار کا استعارہ بن کر رہ گئی ۔ عوام ابھی سیاسی تربیت کے مراحل میں تھے، سو قوم کو اخلاقی لحاظ سے تباہ کرنے کی اس منصوبہ بندی کے تحت وہ بھی انہی راہوں کے مسافر ہو گئے ۔ آج ہمارا ہر فرد اپنے شعبے میں نہ صرف خود مقدور بھر ہاتھ مارتا ہے بلکہ ہم معاشرے کے مستند دو نمبریوں ، رشوت خوروں اور قومی خزانے سے کھلواڑ کرنے والوں کو سر آنکھوں پر بھی بٹھاتے ہیں ۔ یہ ہمارے کلچر کی وہ نمایاں اور ناقابل رشک تبدیلی ہے جو ان انتخابات کے بعد وجود میں آئی ۔ آج جب کوئی رہنما عوام کا جذباتی استحصال کرتے ہوئے ملک میں تبدیلی کی بات کرتا ہے تو وہ شعوری یا لا شعوری طور پر اسی کلچر کی تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہا ہوتا ہے ۔ بارِ دگر عرض ہے کہ یہ تباہ کن تبدیلیاں ،ضیاء الحق نے اپنے نا م معتبر اقدار کو دوام بخشنے کی غرض سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت عمل میں لائیں ، کچھ بنام وطن اورکچھ بہ حیلہ مذہب ۔آج ہمارے دانشوروں کے ایک طبقے کی طرف سے قرار دی جانیوالی ’’چیچک زدہ جمہوریت‘‘ بھی اسی منصوبہ بندی کے تحت وجود میں آئی اور جہالت ،انتہاء پسندی ، دہشت گردی اور فرقہ واریت بھی مذہب کی اسی خود ساختہ تعبیر کا شاخسانہ ہے ۔
مرد مومن کے جانے کے بعد جمہوریت بحال ہوئی مگر بد قسمتی سے سازش ہذا کے اثرات بد سے آج تک نہیں نکل پائی ۔ 1988ء سے 1999 ء تک ملکی قیادت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے ہاتھ رہی ۔ جس طرح کا اور جتنا اقتدار سیاسی قیادت کو دیا گیا ، اس سے سب واقف ہیں اور جتنا سیاسی قیادت ڈیلیور کرنے میں سنجیدہ تھی ، وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔بد قسمتی سے سیاسی جماعتیںمال بنانے اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے سے آگے نہ سوچ سکیں ۔ کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی قیادت ضیاء الحق کے مذکورہ کلچر سے نکلنے کے لئے خود بھی سنجیدہ نہیں تھی۔ اوپر سے جمہوریت کی بساط لپیٹ کر پرویز مشرف تشریف لے آئے ۔انہوں نے اپنے پیش رو کے کلچر کو فروغ دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ سیاسی قیادت کے لئے وہی جیلیں اور جلا وطنیاں اور مرضی کے گھگھو گھوڑے اور سرکاری جماعت گھڑ کر عوام پر مسلط کر دی گئی ۔ ہماری تاریخ کا شرمناک لطیفہ ہے کہ شوکت عزیز بھی پارلیمانی جمہوریت میں لیڈر آف دی ہائوس رہے ، جن کا ملک بھر میں اپنا ایک ووٹ بھی نہیں تھا ۔ اس دوران بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے تجربے کی شاخ پر عقل کی کونپل پھوٹی اور لندن میں میثاقِ جمہوریت وجود میں آیا جس میں آئندہ ایک دوسرے کے خلاف غیر سیاسی قوتوں کا آلہ کار نہ بننے اور موثر احتساب جیسے عہدو پیماں ہوئے ۔ اسی میثاق کا ثمر ہے کہ 2008کے انتخابات میں بننے والی پیپلز پارٹی کی حکومت نے پانچ سال پورے کئے اور موجودہ حکومت بھی اپنا دور مکمل کرتی نظر آتی ہے ۔ اس دوران ان بڑی جماعتوں نے ماضی کے برعکس کسی غیر آئینی تبدیلی کا حصہ بننے یا منتخب حکومت گرانے کی کوشش نہیں کی ۔ نیز جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف نے بھی براہِ راست حکومت سنبھالنے کی سعی نہیں کی ۔ خصوصاً موجودہ آرمی چیف اس لحاظ سے بھی خراج تحسین کے حقدار ہیں کہ انہوں نے ایک دلیر اور خالص پیشہ ور سپاہی کی حیثیت سے اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لا کر ملک و قوم کی حفاظت کی ہے ۔ یقینا تاریخ ان کے ساتھ انصاف کرے گی اور ملک کے زیرک اور قابل ترین سپہ سالار کی حیثیت سے انہیں ان کا جائز مقام دے گی۔
ماضی قریب کی تاریخ کے اس مختصر جائزے کے تناظر میں آئندہ کالم میں آج کے مقبول مباحثے یعنی موجودہ جمہوریت کے باب میں مزید اپنی گزارشات پیش کی جائیں گی، جن سے آپ کا متفق ہونا ہر گز ضروری نہیں کہ جمہوریت چاہے ایک نمبر ہو یا دو نمبر، اس کے دامن میں اتنی گنجائش ضرور ہوتی ہے کہ اختلافِ رائے برداشت کر سکے۔
تازہ ترین