• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: شائستہ اظہر صدیقی، سیال کوٹ

ماڈل: اسماء خان

ملبوسات: Sab Textile by Farrukh Ali

آرائش: ماہ روز بیوٹی پارلر

عکاسی: ایم۔ کاشف

کوآرڈی نیٹر: حرا انصاری

لےآؤٹ: نوید رشید

زہرا نگاہ کی کیا سادہ، اُجلی، خُوب صُورت سی غزل ہے ؎ ’’اپنا ہر انداز آنکھوں کو تر و تازہ لگا… کتنے دن کے بعد مجھ کو آئینہ اچھا لگا… سارا آرائش کا ساماں میز پر سوتا رہا… اور چہرہ جگمگاتا، جاگتا، ہنستا لگا… ملگجے کپڑوں پہ اُس دن کس غضب کی آب تھی… سارے دن کا کام اُس دن کس قدر ہلکا لگا… چال پر پھر سے نمایاں تھا دلآویزی کا زعم… جس کو واپس آتے آتے کس قدر عرصہ لگا… مَیں تو اپنے آپ کو اُس دن بہت اچھی لگی… وہ جو تھک کر دیر سے آیا، اُسے کیسا لگا۔‘‘ آرائش و زیبائش محض، رنگ وانداز کا نام نہیں۔ یہ درحقیقت انسان کی اندر کی دنیا کا ایک آئینہ ہے۔ 

یہ محض تن ڈھانکنے کا ایک طریقہ، ذریعہ نہیں، یہ تو باطنی دنیا کا خارجی اظہار ہے۔ پہننے اوڑھنے کے الگ الگ ڈھنگ انسان کے خیالات، جذبات، شعور کا خاموش اعتراف ہوتےہیں۔ لباس کا انتخاب صرف کپڑوں کی خریداری تک محدود نہیں، درِپردہ اس طور اپنی ذات کی ایک نئی تعریف طے کی جاتی ہے۔ 

یہ خموش گفتگو کے ذریعے معاشرے میں اپنی انفرادیت کا پرچم بلند کرنے یا اپنے رواج کی پاس داری کا حسین پیرایہ ہے۔ آج کل برانڈز اور بیش قیمت اشیاء کا ذہنوں پر جو ایک خبط سوار، دوڑ سی لگی ہے، ہر ایک نام وَر کمپنیز کی مصنوعات خُود پراوڑھ لینے کو بےتاب ہے، نتیجتاً انسان کی اپنی ذات کہیں پیچھے، بہت پیچھے رہ گئی اور ہر شخص بس مختلف مصنوعات کا چلتا پِھرتا اشتہار بن کے رہ گیا ہے۔ 

تو ایسے اندھا دھند بلکہ سِرے سے اندھے دَور اور دوڑ میں جو چیز انفرادیت دے سکتی ہے، وہ ’’مخصوص انداز‘‘ ہی ہے، جو کسی بڑے بجٹ کا محتاج بھی نہیں۔ یوں بھی خوشی کا لباس سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔ آپ کا مخصوص انداز بھی آپ کو بے پناہ خوشی دے سکتا ہے اور آپ کا یہ اسٹائل، انداز، سیگنیچر لُک قیمت میں نہیں، پہننے اوڑھنے کے طریقے سلیقے میں پنہاں ہے۔ 

سچ تو یہ ہے کہ سادگی اپنانا، اختیار کرنا دراصل شخصیت کے اندرونی حُسن کا اظہار ہے اور اگر حال میں مست، استطاعت پر شاکر، سوچ میں باوقار اور کردار کےمضبوط افراد اپنے مخصوص انداز، ملبوسات کےمنفرد انتخاب کی بدولت بہت پُراعتماد دکھائی دیتے ہیں تو یہ کچھ ایسا عجب بھی نہیں۔ 

فیشن اور جذبات کا رشتہ اس قدر لطیف ہے کہ اسے شعوری طور پر محسوس بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کبھی رنگوں میں مسرت کی جھلک ہوتی ہے کبھی یہ پسِ پردہ کسی غم کا بیاں ہوتے ہیں۔ وہ کیا ہے کہ ؎ دل سے نکلی ہوئی آواز جو پہن لی ہے… لباس ہے یا تیرے غموں کی کہانی ہے۔ مشکلاتِ زندگی سے نڈھال ہوجانے کے بعد بعض اوقات یہ انداز نفسیاتی سہارا بھی بن سکتے ہیں۔ 

جب کوئی خاص پیراہن کھوئی ہوئی خوداعتمادی واپس دِلاکر، رُوح میں پوشیدہ طاقت کا احساس زندہ کرکے، شخصیت کو ایک نیا رُوپ رنگ دےکر، ٹوٹے حوصلوں کو پھر سے جوڑ دیتا ہے۔ کبھی کسی قیمتی جوڑے میں خوابوں کی تکمیل کی جھلک دکھائی دیتی ہے، تو کبھی کوئی سادہ سا کُرتا گزرے دِنوں کی یاد کا آئینہ بن جاتا ہے۔ گویا لباس صرف مادی وجود ہی نہیں رکھتا، یہ رُوح کی تاریخ، اُس کی کیفیات کا بھی امین ہے۔ مگر اصل انداز صرف لباس سے نہیں کردار، گفتار اور افکار سےجھلکتا ہے۔

جس طرح خواہ سستا اور سادہ، مگر سلیقے سے پہنا لباس دل کش لگتا ہے، اُسی طرح باوقار سوچ، شگفتہ اندازِ گفتگو رُوح کو تسکین دیتا ہے۔ حقیقی حُسن وہ ہے، جو اندر سے پُھوٹتا ہے اور دوسروں کے دِلوں کو چُھو کرمتاثر کر دیتا ہے۔ یہ صرف آنکھوں کو بھانے والا نہیں، رُوح کو مسرور کردینے والا ہوتا ہے اور بات کچھ یوں بنتی ہے کہ ؎ ’’وہ قبول صُورت سی… سانولی بھلی عورت… تھوڑا رُک کے دیکھیں تو… کتنی خُوب صُورت ہے… اُس کے نرم لہجے میں… اُس کی سوچ کی خوشبو… اُس کے ذوقِ پوشش میں… ہلکے ہلکے رنگوں کے… انتخاب کا جادو… فکر کی جواں کرنیں… اُس کی رُوپ ریکھائیں… انکھڑیوں میں کچھ خاکے… مضطرب خیالوں کے…‎انگلیوں میں رچنائیں… نغمۂ تکلم میں… زیروبم کئی غلطاں… ظرف اور ظرافت کے… زیرِلب تبسم سے… کُھل کے مُسکرانے تک… پیچ و خم کئی لرزاں… اختیار و عادت کے… سادگی میں چہرے کی… شمع اک فروزاں سی… آنچ دردمندی کی… لو کسی بلندی کی… جنبش ِروش اُس کی… نرم گام و آہستہ… اِک جہان رعنائی… ہر نگاہ شائستہ… کیف میں لطافت کے… تیزحسیت شامل… تیغ سے ذہانت کی…اُس کی ہر ادا قاتل…وہ قبول صُورت سی…سانولی بھلی عورت…تھوڑا رُک کے دیکھیں تو… کتنی خُوب صُورت ہے!!‘‘

‎اب آج کی بزم پہ بھی نگاہ ڈال لیں۔ نیلے رنگ کا ایک بالکل سادہ سا جوڑا ہے، جس پرہلکے، دھیمے رنگوں کا نفیسں ساپرنٹ ہے، تو باریک نقش ونگار بھی بہت نفاست کا تاثر دے رہے ہیں۔ 

سیاہ رنگ، جو گہرائی کی علامت ہے، اُس پر سنہرے اورکریم رنگ کے پھول، پتّوں کا پرنٹ ظاہر کر رہا ہے کہ لازم نہیں کہ رنگوں کی بھرمار ہی جاذبِ نظر بنائے، محض ایک عُمدہ انتخاب بھی شخصیت کوچار چاند لگاسکتا ہے۔ شوخ سبزرنگ، اپنانے والے کے پُرجوش، بااعتماد ہونے کا اشارہ ہے، تو گہرے اور منفرد ڈیزائن کا پرنٹ سادگی کے باوجود، پُرکاری کا جوہر رکھتا ہے۔ 

نیلے اور فیروزی کا امتزاج نہ صرف بہترین ذوق کا عکّاس ہے بلکہ اِس کا پرسُکون پرنٹ اور اس میں شامل رنگ ثقافتی و جمالیاتی طرز کے بھی غمّاز ہیں۔ سُرخ رنگ ہمیشہ سے پُرجوش طبیعت کا ترجمان رہاہے۔ زندگی سے بھرپور اور والہانہ شخصیت کے اظہار کے لیے اِس لباس کا انتخاب بہترین ثابت ہوگا اورگہرے گلابی رنگ کا پہناوا بھی دل وجاں کو خُوب شگفتگی بخش رہا ہے۔ 

تو بات یہیں آکے ختم ہوتی ہے کہ حُسن وخُوب صُورتی کا سرچشمہ جسم نہیں، رُوح ہے، یہ ایک ایسی توانائی ہے، جو ہمارے وجود سے پُھوٹتی ہے اور ہر اُس چیز میں سرایت کرجاتی ہے، جو ہم اختیار کرتے ہیں، چاہے وہ لباس ہو، گفتگو یا ہمارا کردار۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سادہ لباس بھی جب کوئی باوقار شخصیت پہنتی ہے، تو اُس میں آپ ہی آپ ایک کائناتی کشش پیدا ہوجاتی ہے۔ تو، سو باتوں کی ایک بات کہ ہمارے ظاہر کو بہرکیف ہمارے باطن کا ترجمان ہونا چاہیے۔