• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر تو یہ سطور میں واشنگٹن سے کر رہا ہوں اور پیرس سے میری پرواز ابھی ابھی واشنگٹن ایئر پورٹ پر پہنچی ہے ۔ یورپ 2016ء آخری بار آنا ہوا تھا جب محترم نواز شریف کی عیادت کیلئے لندن گیا تھا تو کچھ ایام یورپ بالخصوص فرانس میں بھی گزارے تھے ۔ 2001 ء سے دسیوں بار مختلف یورپی ممالک کی دعوت پر ان ممالک میں آنا جانا رہا ۔ اس بار لیون، پیرس اور الیپو کی اٹلی کے پاس پہاڑیاں مسکن رہیں۔ گوروں کی جانب سے دورے کی دعوت تو بہت عرصے سے تھی بلکہ بار بار تھی مگر جانا اب ہوا حالانکہ اس دوران چین اور امریکہ جانا رہا۔ جس دن پیرس پہنچا اسی روز فرانسيسی وزارت خارجہ کے دفتر میں فارن افیئرز اور پاکستانی ڈیسک کے سربراہان سے ملاقاتیں طے تھیں ۔ فرانس میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کا شور و غوغا تھا مگر پھر بھی ایک سینیٹر سے ملاقات ہوئی اور دیگر فرانس کے اعلیٰ سفارت کاروں سے گفتگو رہی۔ فرانس سمیت پورے یورپ میں جنوبی ایشیا اور اس سے ملحقہ علاقوں کی سیاست پر بہت زیادہ غور کیا جا رہا ہے ۔ فرانس میں تو یہ سوال بار بار سننے کو ملا کہ یہ کوئی ماضی بعید کا قصہ نہیں کہ جب امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں گرم جوشی کا زبر دست فقدان دیکھنے میں آ رہا تھا مگر یکایک ایسا کیا ہوا کہ واضح طور پر یہ فقدان اپنے اختتام کو پہنچ گیا ؟ امریکہ کی جنوبی ایشیا پالیسی میں انڈیا کو جو اہمیت حاصل تھی اس سے محسوس ہوتا تھا کہ پاکستان کی اہمیت بہت کم ہو گئی ہے ۔ کیا صرف حالیہ پاک انڈیا تصادم کے نتائج نے امریکہ کا زاویہ نظر تبدیل کر دیا ہے یا امریکہ کی نگاہیں کسی اور معاملہ پر پاکستان پر مرتکز ہو گئی ہیں ؟سوال یہ حقیقت میں بہت اہم ہے کہ امریکی رويه کی تبدیلی میں کیا راز پنہاں ہے ۔ یہ تو امریکیوں سے گفتگو کے بعد بہت عرصے سے محسوس کیا جا رہا تھا کہ وہ انڈیا کے کینیڈا ، امریکہ وغیرہ میں قتل کرانے کی سازشوں اور اقدامات کو اپنی حیثیت کو چیلنج کرنا سمجھ رہے تھے مگر صرف یہ وجہ نہیں ہو سکتی ۔ یقینی طور پر پاک انڈیا حالیہ تصادم نے یہ گرہ کھول دی ہے کہ پاکستان اپنے دفاع میں نیوکلیئر ٹیکنالوجی پر بھروسہ کرتا ہے یہ تصور درست نہیں بلکہ اسکے نتائج نے تو واضح کیا ہے کہ نیوکلیئر ٹیکنالوجی پر انڈیا کا دارومدار ہوگا کیوں کہ روایتی ہتھیاروں کی جنگ میں تو پاکستان نے انڈیا کے چودہ طبق روشن کر دیے ہیں ۔ اب کیا ریئر ارتھ منرلز کا معاملہ کچھ ایسی صورتحال اختیار کر گیا ہے کہ جس نے امریکہ کو پاکستان کے حوالے سے رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے ؟ ارباب اختیار کو اس حوالے سے بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہئے ۔ فرانس اور یورپ سے پاکستان کے تعلقات کی نوعیت بنیادی طور پر اقتصادی ہے اور اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ یہ ممالک پاکستان سے تعلقات میں بہتری لانا چاہتے ہیں اور ان کے پاس اس وقت بھی ایسے منصوبے موجود ہیں کہ جو تعلقات میں مزید اقتصادی نکھار پیدا کر سکتے ہیں ۔ مگر یورپ اس وقت ان سوالات کے ساتھ گفتگو کرنا چاہتا ہے کہ پاکستان کو جی ایس پی پلس سٹیٹس دیتے وقت جو اہداف طے ہوئے تھے انکی اس وقت کیا پوزیشن ہے ۔ مثال کے طور پر جی ایس پی پلس دیتے وقت یہ طے کیا گیا تھا کہ پاکستان میں صنعتی اداروں میں مزدوروں کے حالات ، شرائط ملازمت کو بہت بہتر کیا جائیگا مگر اس حوالے سے کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی ۔ فرانسیسی اس معاملہ سے اس حد تک آگاہی رکھتے ہیں کہ انہوں نے مجھے فیصل آباد کے ان کارخانوں تک کا بتایا کہ جہاں سے یورپ اشیا ایکسپورٹ کی جا رہی ہیں کہ ان کارخانوں میں مزدوروں کے حالات کس قدر دگرگوں ہیں ۔ پاکستان میں بیٹھ کر ہم آئے روز دیکھتے ہیں کہ مذہبی انتہا پسندی کس طرح سے معاشرے کو نقصان پہنچا رہی ہے مگر بد قسمتی سے اس کو معمول سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دیتے ہیں مگر یورپ میں اس حوالے سے بہت حساسیت پائی جاتی ہے ۔ اور وہ اب بات صرف غیر مسلم پاکستانیوں کے ساتھ نا انصافی کے حوالے سے نہیں کرتے بلکہ ان کے پاس سوشل میڈیا پر موجود ایسی ویڈیوز موجود تھیں کہ جن میں ایک طبقہ اپنی طاقت کا برہنہ اظہار کر رہا تھا اور دوسروں کے مذہبی حقوق کو فخریہ پامال کر رہا تھا ۔ وہاں زبان پر ایک ہی بات تھی کہ اگر ہم آپ سے صرف یہ توقع رکھتے ہیں کہ مذہبی حقوق کے حوالے سے آپ اپنے ہی قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں تو اس میں غلط کیا ہے ؟ افغانیوں کی پاکستان سے بیدخلی کو انسانی حقوق اور دیگر ان لوگوں کے مسئلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ جو نائن الیون کے بعد ان ممالک کے سہولت کار تھے اور ابھی بوجوہ ان کو یورپی ممالک ویزے جاری نہیں کر سکے ہیں اور یہ ممالک چاہتے ہیں کہ پاکستان ان افراد کے معاملے کو یورپ سے تعلقات اور جی ایس پی پلس سٹیٹس کے تناظر میں دیکھے ۔ پھر یورپ میں یہ تصور رائج ہو چکا ہے کہ روس کے یوکرائن پر حملے نے یورپ کو سوفٹ یورپ سے ہارڈ یورپ میں تبدیل کر دیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان بھی اپنی یہ پوزیشن واضح کرے کہ وہ اس تنازع میں یورپ کے ساتھ کھڑا ہے یا روس کی حمایت کر رہا ہے ۔ غزہ پر سچی بات یہ ہے کہ یورپ بھی بری طرح سے محسوس کر رہا ہے کہ بہت ظلم ہو رہا ہے مگر اسرائیل کو روکنا یورپ کے بس کی بات نہیں بلکہ ایک فرد نے تو مجھے یہاں تک کہا کہ ہم روس سے اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں اور ہمارا دارومدار امریکہ پر ہے تو ہم کسی حد تک ہی اسرائیل کی مخالفت کر سکتے ہیں ۔

تازہ ترین