• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب’’ڈیٹنگ شو‘‘ کی ہی کسر رہ گئی تھی، جسے کسی چینل میں شروع کیے جانے کی سوشل میڈیا میں تشہیر ہو رہی ہے۔ ڈیٹنگ ہے کیا اس حوالے سے بس اتنا کہنا کافی ہو گا کہ بے حیائی اور زنا جیسے گناہ کے فروغ کا ایک رستہ ہے جس کا تصور مغرب کی تہذیب میں عام ہے۔ وہاں لڑکا اور لڑکی بغیر کسی شرعی اور اخلاقی حد کے آزادانہ ملاقات کرتے ہیں، گھومتے پھرتے ہیں اور اکثر ایسے تعلقات قائم کر لیتے ہیں جو نہ صرف غیر اخلاقی بلکہ اسلامی نقطہ نظر سے سراسر حرام ہیں۔ یہ ملاقاتیں محض وقتی لذت، وقتی تعلق اور وقتی تفریح کا ذریعہ سمجھی جاتی ہیں۔ خاندان، رشتے اور معاشرتی اقدار ان کے ہاں ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب کیا ہم بھی اسی راستے پر چلنا چاہتے ہیں؟ کیا ہم اپنی نوجوان نسل کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ بے حیائی اور آزاد تعلقات ایک ’’نارمل‘‘ طرزِ زندگی ہے؟ پاکستانی معاشرہ اپنی اسلامی اقدار، مشرقی روایات اور خاندانی نظام کی مضبوطی کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک منفرد پہچان رکھتا رہا ہے، یہاں شرم و حیاکو عورت کا زیور اور مرد کی غیرت سمجھا جاتا ہے لیکن افسوس کہ پچھلے کئی برسوں سے ہمارے ہاں میڈیا نے اس معاشرتی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ڈراموں، فلموں سے لے کر اشتہارات تک اور اب سوشل میڈیا میں ہر جگہ ایک ہی ایجنڈا غالب نظر آتا ہے کہ کس طرح معاشرے سے شرم و حیا کے تاثر کو سرے سے ہی ختم کیا جائے اور نئی نسل کو مغربی طور طریقوں کا گرویدہ بنایا جائے۔ اسلام نے مرد و عورت کے تعلقات کے بارے میں واضح حدود مقرر کی ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں فحاشی اور عریانی نہ پھیلے، خاندان کا ادارہ مضبوط رہے اور عورت کا وقار اور مرد کی غیرت محفوظ رہے۔ لیکن آج ہمارا میڈیا انہی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے معاشرے کو ایک ایسے دھارے پر ڈال رہا ہے جہاں بے حیائی کو ترقی اور آزادی کا نام دیا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے میڈیا نے پہلے ہی معاشرے میں فحاشی کو عام کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ڈراموں میں غیر شرعی تعلقات کو رومانی انداز میں دکھانا، اشتہارات میں عورت کو محض ایک ’’شو پیس‘‘ کے طور پر پیش کرنا، موسیقی اور رقص کے پروگراموں میں پردے اور حیا کی دھجیاں اڑانا، یہ سب کچھ معمول بن چکا ہے۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ خاندان کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی دیکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس صورتحال نے نئی نسل کے ذہنوں پر بہت بُرا اثر ڈالا ہے۔ وہ نہ صرف اپنے دین اور اپنی اقدار سے دور ہو رہے ہیں بلکہ عملی زندگی میں بھی مغربی طرزِ معاشرت کو اپنانا ’’فیشن‘‘ سمجھنے لگے ہیں۔ یہ سب کچھ معاشرے کے لیے نہایت خطرناک ہے۔ فحاشی اور عریانی میں اضافہ صرف اخلاقی بگاڑ پیدا نہیں کرتا بلکہ خاندانی نظام کو بھی توڑ دیتا ہے۔ جب نوجوان نسل شادی سے دور بھاگ کر وقتی تعلقات کو ترجیح دیتی ہے تو اس کا نتیجہ خاندانی نظام کی تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔ ماں باپ کی عزت ختم ہوتی ہے، اولاد والدین سے بغاوت کرتی ہے، اور معاشرتی انتشار بڑھتا ہے۔ اس کے علاوہ جرائم، زیادتیوں اور معاشرتی بے سکونی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ یہی کچھ مغرب میں ہو رہا ہے، اور افسوس کہ اب پاکستان بھی اسی راستے پر چل پڑا ہے۔ سب سے افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت، عدالت اور ریاستی ادارے اس بگاڑ کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ بلکہ اگریہ کہا جائے کہ اُنہیں تو اس تباہی کا احساس ہی نہیں توشاید غلط نہ ہو گا۔ پیمرا جیسا ادارہ محض کاغذی کارروائی تک محدود ہو گیا ہے بلکہ فحاشی عریانیت کو دیکھنے سے ہی معذور ہو چکا ہے۔ سیاستدانوں کی طرح عدالتیں بھی میڈیا سے خوفزدہ ہو کر ایسے معاملات میں مؤثر کردار ادا نہیں کررہیں۔ حکومتوں کی ترجیح بھی میڈیا کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ میڈیا ایک بے لگام گھوڑا بن چکا ہے جسے کوئی قابو میں لانے والا نہیں۔میڈیا کے خلاف آواز بلند کرنے سے سب ڈرتے ہیں۔ جو کوئی بھی فحاشی اور بے حیائی کے خلاف بولتا ہے، اسے تنگ نظر، دقیانوسی اور قدامت پرستی کا طعنہ دے کر خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یوں معاشرے کو تباہی سے بچانے والے کم اور تماشہ دیکھنے والے زیادہ ہو گئے ہیں۔ ویسے پوچھیں تو سب مانتے ہیں کہ میڈیا نے ہماری دینی اور معاشرتی اقدار کو تباہ کر دیا لیکن اس پر سامنے آ کربات نہیں کرتے، میڈیا کا احتساب کرنے سے ڈرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست فوری طور پر میڈیا کی اصلاح کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔ میڈیا پر واضح حدود جو آئین و قانون میں پہلے سے مقرر ہیں ان پر سختی سے عمل کیا جائے اور جو کوئی فحاشی و عریانیت پھیلائے اُس کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔ عوام خود بھی ایسے پروگراموں کا بائیکاٹ کریں اور اپنی اولاد کو بھی ان منفی رجحانات سے محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ جہاں تک ممکن ہو اس کے خلاف آواز بلند کریں۔ اگر ہم وقت پر نہ بولے تو یہ ڈیٹنگ شوز اور اسی نوع کے واہیات پروگرام ہماری نئی نسل کو اس نہج پر لے جائیں گے جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوگی۔ حیاکا چراغ بجھ گیا تو نہ خاندان باقی رہیں گے اور نہ ہی معاشرہ اپنی بنیادوں پر قائم رہ سکے گا۔ ہمیں فیصلہ آج کرنا ہوگا، ورنہ کل بہت دیر ہو چکی ہو گی۔

تازہ ترین