• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دنوں ایک یونیورسٹی میں سیمینار کے دوران سوال و جواب کا سیشن جاری تھا ،طلبہ وطالبات کے سوالات ختم نہیں ہو رہے تھے ۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے شدید ناراض ہیں، میں انہیں بار بار بتا رہا تھا کہ پاکستانی میڈیا بہت سی علانیہ اور غیر علانیہ پابندیوں کا شکار ہے ۔ان پابندیوں کے باوجود میڈیا جتنا سچ سامنے لا سکتا ہے وہ لانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کوشش کے سنگین نتائج بھی بھگتتا ہے۔سوالات کرنے والے طلبہ وطالبات کی اکثریت کا تعلق ماس کمیونیکیشن کے شعبے سے تھا ۔ وہ پوچھ رہے تھے کہ انہیں صحافت کا پیشہ اختیار کرنا چاہئے یا نہیں ؟ میں انہیں بتا رہا تھا کہ میرے والد مرحوم صحافت کے استاد تھے لیکن انہوں نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ میں صحافی بننے کا خیال دل سے نکال دوں کیونکہ یہ بہت خطرناک شعبہ ہے ۔ انہیں اپنی تحریروں کے باعث بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور سخت ذہنی دباؤ کے باعث وہ صرف 48 سال کی عمر میں انتقال کر گئے ۔ میں نے اپنے والد کے مشورے کیخلاف صحافت کے میدان میں قدم رکھا لیکن اس معاملے میں مجھے اپنی والدہ کے ساتھ ساتھ دادا کی تائید بھی حاصل تھی ۔ میری باتیں سُن کر ایک طالبہ نے پوچھا کہ کیا آپ ہمیں مشورہ دے رہےہیں کہ ہم صحافی نہ بنیں؟ مجھے یہ سوال بہت ہی مشکل لگا ۔ میں نے بڑے محتاط انداز میں کہا کہ چالیس سال پہلے میرے والد پروفیسر وارث میر کہتے تھے کہ صحافت ایک خطرناک پیشہ ہے ، افسوس کہ یہ آج بھی خطرناک ترین پیشوں میں سے ایک ہے لیکن اگر آپ خطرات سے کھیلنا چاہتے ہیں تو پھر جان ہتھیلی پر رکھ کر صحافی بن جائیں لیکن صرف صحافی بنیں کسی سیاسی جماعت کے کارکن یا کسی ریاستی ادارے کے ترجمان نہ بنیں ۔ سوال و جواب کا سلسلہ طویل ہو رہا تھا ۔ میں نے طلبہ وطالبات سےگزارش کی کہ اب آخری سوال کریں۔ پچھلی نشستوں پر بیٹھے ایک طالب علم نے سوال کیا کہ زندگی کی کوئی ایسی غلطی جس پر آج بھی آپکو بہت پچھتاوا ہوتا ہے ؟ سوال سنتے ہی وہ غلطی میرے دل و دماغ میں بجلی کی طرح کوندنے لگی جو آج بھی مجھے بہت نادم کر دیتی ہے ۔ میں نے اس غلطی کا اعتراف کرنے کیلئے جیسے ہی لب کھولے تو بجلی چلی گئی ۔ سیمینار ہال میں اندھیرا چھا گیا اور مائیک بھی آف ہو گیا ۔ کچھ دیر تک انتظار کیا کہ شائد بجلی واپس آجائے لیکن بے صبرے طلبہ وطالبات نے اندھیرے کا فائدہ اُٹھا کر نعرہ بازی شروع کر دی۔ یونیورسٹی انتظامیہ ان نعروں سےگھبرا گئی اور مجھے اسٹیج کے پیچھے سے باہر لے گئی ۔ جب میں واپس جانے کیلئے گاڑی میں سوار ہوا تو کچھ طلبہ نے مجھے روک کر کہا کہ آخری سوال بہت اہم تھا ہم اسکے جواب کا انتظار کرینگے ۔ میں نے پوچھا کہاں انتظار کرو گے ؟ ایک استاد نے لقمہ دیا کہ آپ اپنے کالم میں جواب دے دیجئے گا لیکن ہماری یونیورسٹی کا نام نہ لکھئے گا کیونکہ سیمینارکے آخر میں جونعرے لگے وہ انتہائی سیاسی تھے بلکہ شدید سیاسی تھے ۔ میں نے ہنستے ہوئے انہیں بتایا کہ میں نے جس غلطی کا اعتراف کرنا تھا وہ انتہائی غیر سیاسی تھی لیکن نوجوانوں کو بتانا بڑا ضروری ہے ۔ تو پیارے قارئین ! جس غلطی پر میں بہت نادم رہتا ہوں وہ غلطی یہ تھی کہ بچپن میں ہمارے ایک ماموں نے ہمیں ایک ایئرگن کا تحفہ دیدیا ۔ ہم اس ایئر گن سے پرندوں کا شکار کرنے لگے ۔ والدہ اور والد بہت روکتے تھے لیکن میں چھپ چھپ کر تلیر اور جنگلی کبوتروں کا شکار کرنے لگا ۔ پرندوں کا گوشت پکانے کا کام ہمارے ایک دوست ارشد لطیف کیا کرتے تھے کیونکہ گھر میں پرندوں کا گوشت لانا ممنوع تھا ۔ اسکول سے کالج میں پہنچے تو ایسے دوست‎ مل گئے جو تیتروں اور مرغابیوں کے شکار کے شوقین تھے لیکن میں جلد ہی اس شوق سے تائب ہو گیا کیونکہ مجھے شکار کی گئی مرغابیوں کے ساتھ تصاویر کھنچوانے والے دوست بہت ظالم لگنے لگے ۔ میرے کچھ دوست ابھی تک پرندوں اور جانوروں کا شکار کرتے ہیں ۔ وہ اپنا شوق جاری رکھیں لیکن مجھے بچپن میں ائر گن سے تلیر اور کبوتر مارنے پر آج بھی بہت ندامت ہے ۔ اس اعتراف جرم کا مقصد یہ قطعاً نہیں کہ اُن غیر ملکی شہزادوں کی شان میں گستاخی کی جائے جو ہر سال پاکستان آکر سینکڑوں ہزاروں پرندوں کا شکار کرتے ہیں ۔مجھے تو تکلیف صرف اس بات کی ہے کہ جب ہم یورپ کے کسی شہر میں جاتے ہیں تو وہاں چوکوں چوراہوں پر پرندے انسانوں کے در میان بلا خوف و خطر گھومتے نظر آتے ہیں لیکن پاکستان میں پرندے انسانوں سے دور بھاگتے ہیں ۔ پاکستان میں تو انسان بھی انسانوں سے بہت ڈرتے ہیں لیکن یہاں پرندوں کا انسانوں سے ڈرنا ایک بے رحم معاشرے کا ثبوت ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں پرندوں اور جانوروں سے محبت کرنیوالوں کی بھی کمی نہیں لیکن چند دن قبل سکھر کے علاقے صالح پٹ میں ایک مقامی جاگیردار کی طرف سے ایک اونٹنی کو ٹریکٹر کے ساتھ باندھ کر گھسیٹنے اور اُس کے منہ پر ڈنڈے مارنے کی خبر بہت تکلیف دہ تھی ۔ گزشتہ سال سانگھڑ کے ایک جاگیردار نے بھی اپنی فصلوں میں گھس جانیوالی ایک اونٹنی کی ٹانگ کاٹ دی تھی۔ سکھر میں اونٹنی پر ظلم کرنے والا شخص قربان بروہی گرفتار ہو گیا ہے لیکن وہ بہت جلد رہا ہو جائے گا ۔ پاکستان میں جانوروں پر ظلم و زیادتی کیخلاف قانون بہت کمزور ہے ۔ جس معاشرے میں جانوروں پر ظلم کیا جاتا ہے اُس معاشرے میں انسان بھی انسانوں سے محفوظ نہیں رہتے کیونکہ جانوروں سے پیار کرنے والے انسانوں سے بھی پیار کرتے ہیں ۔ ہم ہر سال بڑے اہتمام سے عید میلاد النبی مناتے ہیں لیکن اپنے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کی تعلیمات پر عمل کا اہتمام نہیں کرتے ۔ ہمارے پیارے نبیﷺ نے صرف انسانوں پر نہیں بلکہ جانوروں پر بھی ظلم سے بھی منع کیا ہے ۔ قرآن مجید میں ناقہ یعنی اونٹنی کا ذکر سات آیات میں موجود ہے ۔ سورہ البقرۃ (گائے ) اور الفیل (ہاتھی ) جانوروں کے نام پر ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ کی اپنی اونٹنی کا نام قصواتھا جس سے پیارے نبی کریم بہت محبت کرتے تھے ۔کئی احادیث میں بتایا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ زندہ جانور کے اعضاء کاٹنے والے پر لعنت بھیجتے تھے ۔ وہ نبی ﷺ جو اپنے آپ پر ظلم کرنے والے دشمنوں کو معاف کر دیتے تھے وہ جانوروں پر ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے تھے ۔ ایک صحابی نے آپ ﷺسے پوچھا کہ میں اپنے اونٹ کو پانی پلانے کیلئے حوض بھرتا ہوں تو دوسرے کا اونٹ بھی آکر اس میں سے پانی پی لیتا ہے تو کیا مجھے ثواب ملے گا ؟ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ جانور کو کھلانا پلانا لائق اجر ہے ۔ آپ نے ایک بدکار عورت کو محض اس لئے جنتی قرار دیدیا تھا کہ اُس نے ایک پیاسے کتنے کو پانی پلایا ۔ نبی کریمﷺ نے نا صرف سانڈوں اور بیلوں کی لڑائی بلکہ مرغوں اور پرندوں کی لڑائی کو بھی ممنوع قرار دیا ۔ چیونٹی اور بچھو کو بوقت ضرورت مارنے کی اجازت دی لیکن آگ میں جلانے سے منع کیا ۔ انہوں نے جانور کو ذبح کرتے وقت بھی احتیاط کا حکم دیا اور کہا کہ ایک جانور کے سامنے دوسرے جانور کو ذبح نہ کرو ۔ قرآن و حدیث کے یہ حوالے مجھے اس لئے یاد آئے کہ عید میلادالنبی پر بڑی بڑی عمارتوں پر چراغاں کرنے والوں کو اپنے دل و دماغ میں تعلیمات نبویؐ کا چراغاں بھی کرنا چاہئے۔ یہ نہ سمجھیےگا کہ آج کے پاکستان میں انسانوں پر ظلم کی مذمت مشکل ہو چکی اس لئے میں نے جانوروں پر ظلم کی مذمت میں کالم لکھ مارا ۔ جب ہم جانوروں سے محبت کرنا سیکھ جائیں گے تو انسانوں سے محبت بھی سیکھ لیں گے۔ ہمیں ایک ایسا معاشرہ بنانا ہے جہاں پرندے انسانوں سے خوف نہ کھائیں، ایسے معاشرے میں انسان بھی انسان سے خوف نہیں کھائے گا۔

تازہ ترین