پاکستان اور چین کے تعلقات کی داستان ایک لازوال رفاقت کی ہے جو ہر آزمائش کے وقت مزید نکھرتی گئی ہے۔ صدر آصف علی زرداری کا حالیہ سرکاری دورہ چین اس دوستی کی ایک اور روشن مثال کے طور پر سامنے آیا۔ یہ دورہ محض روایتی سفارتی تبادلہ نہیں بلکہ پاکستان کی معیشت، سیاست اور مستقبل کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک نئے باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ صدر زرداری نے اپنی قیادت میں اس سفر کو کامیابی سے ہمکنار کیا اور پاکستان کے لیے ایسے مواقع پیدا کیے جو آنے والے برسوں تک اثر انداز ہوں گے۔
اس دورے کی خاص بات یہ تھی کہ صدر زرداری اور ان کے ہمراہ موجود اعلیٰ سطحی وفد نے چین کے مختلف اہم شہروں کا دورہ کیا جن میں چینگدو، شنگھائی اور اُرومچی وغیرہ شامل ہیں۔ یہ انتخاب نہایت حکمت عملی کے تحت کیا گیا کیونکہ ان شہروں کی اپنی الگ اقتصادی اور تزویراتی اہمیت ہے۔ شنگھائی دنیا کے بڑے مالیاتی مراکز میں شمار ہوتا ہے، چینگدو جدید ٹیکنالوجی اور صنعت کا مرکز ہے جبکہ اُرومچی پاک چین سرحدی خطے کا اہم ترین شہر ہے جہاں سے زمینی تجارت اور خطے کی جغرافیائی سیاست کا گہرا تعلق جڑا ہے۔ ان شہروں میں ہونے والی ملاقاتوں اور معاہدوں نے واضح کیا کہ یہ دورہ صرف مرکز تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے پاکستان اور چین کے تعلقات کو مقامی و علاقائی سطح پر بھی وسعت دی۔
اس دورے کی ایک بڑی کامیابی یہ رہی کہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے چین نے پاکستان کو تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ نئے منصوبوں کے ذریعے پاکستان کو نہ صرف بجلی کی پیداوار میں سہولت ملے گی بلکہ قابل تجدید توانائی کے شعبے میں بھی مدد ملے گی۔ اسکے ساتھ ساتھ زراعت کے میدان میں بھی ایسے معاہدے طے پائے جن سے کسانوں کو براہِ راست فائدہ ہوگا اور پیداوار میں اضافہ ممکن ہوگا۔ ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل معیشت کے شعبے میں بھی مشترکہ منصوبوں کا اعلان کیا گیا جو پاکستان کی نوجوان نسل کیلئےنئے روزگار اور مواقع پیدا کرے گا۔
دفاع اور سیکورٹی کے میدان میں بھی یہ دورہ انتہائی اہم رہا۔ پاکستان اور چین پہلے ہی قریبی دفاعی تعلقات رکھتے ہیں لیکن اس سفر کے دوران دونوں ممالک کے درمیان اس تعاون کو مزید گہرا کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ جدید ہتھیاروں کی مشترکہ تیاری، تربیت اور ٹیکنالوجی کے تبادلے جیسے اقدامات خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال میں پاکستان کے لیے ایک مضبوط سہارا ثابت ہوں گے۔
اس دورے کی سب سے نمایاں جھلک بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری کی شمولیت تھی۔ بلاول بھٹو نے وزارتِ خارجہ کے دوران اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور اب صدر زرداری کے ہمراہ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ پاکستان کی نئی نسل چین کے ساتھ اس دوستی کو مزید مضبوط بنانے کیلئے پوری طرح تیار ہے۔ آصفہ بھٹو زرداری کی موجودگی نے بھی یہ پیغام دیا کہ یہ تعلقات صرف موجودہ قیادت تک محدود نہیں بلکہ آنے والی قیادت بھی اسی جذبے سے اس کو آگے بڑھائے گی۔ اس سے یہ تاثر مزید مضبوط ہوا کہ پاک چین تعلقات ایک خاندانی یا جماعتی ورثہ نہیں بلکہ قومی پالیسی کا حصہ ہیں۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ صدر زرداری نے اپنے خطاب اور ملاقاتوں میں بار بار اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے چین کے ساتھ تعلقات کو نئی جہت دی تھی۔ بے نظیر بھٹو نے بھی اپنے ادوار میں اس دوستی کو مزید گہرا کیا۔ آج اسی روایت کو صدر آصف علی زرداری اور ان کے ساتھ بلاول اور آصفہ بھٹو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ تسلسل اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ چین کو پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مرکزی مقام دیا ہے۔
پاکستان کے اندرونی حالات جیسے سیاسی انتشار، معاشی دباؤ اور سیکورٹی چیلنجز ایسے ہیں کہ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی میں زیادہ سنجیدگی اور ذمہ داری کی ضرورت ہے۔ صدر زرداری کے اس دورے نے یہ پیغام دیا کہ پاکستان عالمی سطح پر تنہا نہیں بلکہ اس کے پاس ایک ایسا مضبوط دوست موجود ہے جو ہر مشکل گھڑی میں اس کا ساتھ دیتا ہے۔ چین نے نہ صرف پاکستان پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا بلکہ عوامی سطح پر تعاون بڑھانے کی یقین دہانی بھی کرائی۔ تعلیم، صحت اور ثقافتی تبادلے کے نئے منصوبے بھی طے پائے جو دونوں ممالک کے عوام کو مزید قریب لائیں گے۔
شنگھائی میں کاروباری برادری سے ہونے والی ملاقاتوں نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ چینگدو میں ہونے والے اجلاسوں میں ٹیکنالوجی اور صنعتی شعبے میں تعاون بڑھانے پر بات ہوئی جبکہ اُرومچی میں ہونے والے مذاکرات نے خطے کی تجارت اور سرحدی روابط کو ایک نئی جہت دی۔ اس طرح یہ دورہ ایک جامع اور ہمہ جہت نوعیت کا رہا جس نے پاک چین دوستی کو مزید گہرائی بخشی۔
یہ کہنا بجا ہوگا کہ صدر زرداری کا یہ دورہ پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ اس کے اثرات آنے والے برسوں تک محسوس کیے جائیں گے۔ معیشت میں نئی سرمایہ کاری، دفاعی شعبے میں پیش رفت اور عوامی سطح پر تعاون کے معاہدے پاکستان کے لیے ایک نئی سمت کا تعین کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ پاک چین دوستی محض ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے جو ہر دور میں اپنی اہمیت ثابت کرتی رہی ہے۔