• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لیخ والینسا جیسی عروج و زوال کی داستانیں تاریخ کا وہ باب ہیں جو کل اور آج ، عوام اور تخت و تاج کو جوڑ کر دیکھنے کی دعوت دیتی ہیں ! جب تک کسی کی سیاست میں توازن اور اسکی رفاقت میں اعتدال پسند مشیران نہ ہوں اور بھلے ہی اسکے پاس نوبل پرائز بھی ہو اور زمانہ فدا بھی، وہ اپنی حکومت کو تسلسل نہیں دے سکتا۔ جہاں بڑے وعدے اور پرکشش شخصیت زمامِ اقتدار تھماتے ہیں وہاں یہی عنان اقتدار سے دور بھی لے جاتے ہیں! جو کہتے ہیں کہ عام آدمی ہی لوگوں کی کسک اور درد کو سمجھتا ہے یہ منہ میں سونے کا چمچ لیکر پیدا ہونیوالا شخص عوامی رنج و الم اور ضروریات کو کیا جانے، یہ فلسفہ بھی غلط نکل آتا ہے۔ ایک کارپینٹر کا لخت جگر تھا اور خود ایک الیکٹریشن لیکن پورے ایک نظام اور دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ 1985ءمیں نوبل پرائز لیتا ہے اور 1990ء میں روس کے پڑوس میں کمیونزم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جمہوری راہ ہموار کرتے ہوئے صدر منتخب ہو جاتا ہے۔ آج اگر آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا آرگینک انٹیلی جنس سے پوچھیں تو وہ پولینڈ کے سابق صدر کو ان جمہوریت پسند لیڈران کی فہرست میں رکھتی ہیں جن میں نیلسن منڈیلا ، ابراہم لنکن، مہاتما گاندھی اور آنگ سانگ سوچی (میانمار) شامل ہیں۔ یہ آنگ سانگ سوچی کو بھی دیکھ لیجئے، نوبل انعام پاتی ہیں، تو ناروے میں کھڑے ہو کر قوم میں انسانی حقوق کی بات کرتی ہیں، اور بعد میں اپنے زریں اقوال کو عملی جامہ نہ پہنانے کی پاداش میں گویا اقتداری نشہ اور اقتداری عزم کے سبب انسانی حقوق کو سنجیدگی سے نہ لینے کے سبب حکومتی سربراہی میں ہی ان سے اکتوبر 2017 میں آکسفورڈ فریڈم ایوارڈ واپس لے لیا جاتا ہے۔جسکی جدوجہد نے اسے 1990ءتا 2010ء تک ہاؤس نظر بندی میں رکھا ، وہی انسانی حقوق والی مسلمانوں کیلئے ظالم ترین ہوگئیں بلکہ انسانی حقوق کیلئے۔ گویا سوچی اور والینسا کے نوبل انعام ان کی سیاسی اور حکومتی کامیابی کی ضمانت نہیں بنے ۔ باوجود اسکے جمہوریت پرستوں کی عالمی فہرست کا وہ حصہ ہیں۔مہاتما گاندھی کا اپنا مخصوص کردار تھا جبکہ زمینی حقائق کم و بیش ففٹی ففٹی ہیں تاہم نیلسن منڈیلا اور ابراہم لنکن سدا بہار قیادت کے طور پر تاریخ کا حصہ ہیں ۔ ایک وقت میں جہاں امریکہ نریندر مودی کو دہشت گرد قرار دیتا وہاں ایک عالم اسے بھی جمہوری برج قرار دیتا اس کے باوجود کہ صرف کشمیر ہی نہیں سب بھارتی اقلیتوں پر جسمانی، نظریاتی اور آئینی ظلم ڈھانے میں مودی پیش پیش تھے اور ہیں۔ اور یہ مودی بھی تو اشرافیہ بیک گراؤنڈ نہیں رکھتے تھے تاہم انسانی حقوق کےعلمبردار تو نہیں نکلے۔ کئی ریسرچ جرنل اور اداروں نے امریکی صدور بل کلنٹن اور بارک اوباما کو بھی بڑے جمہوری لیڈر گردانا تاہم جنوبی کورین چوہنگ کِم نیلسن منڈیلا اور مہاتما گاندھی سے متاثر تھے ۔ کئی زاویہ نظر سے جرمن انجیلا مرکل بھی بڑے جمہوری پسندوں کی فہرست کا حصہ بنیں...مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اقتدار واقعی لوگوں کو ایکسپوژکر دیتا ہے جسکی مشرق و مغرب سے مثالیں ملتی ہیں اگر لیخ والینسا( سابق پولینڈ صدر) کا ماڈل دیکھتے ہیں تو وہ عوام کی آنکھ کا تارا تھے، 1990 سے 1995 تک اقتدار رہا مگر بعد میں کبھی نہ مل سکا۔ حالانکہ یہ بات بھی شک و شبہ سے بالا ہے کہ روسی بلاک میں پہلا شگاف ڈال کر عالمی توجہ اور مدد پانے والاوالینسا تھا ۔ ٹریڈ یونین لیڈر کی حیثیت سے لوہا منوایا، کیمونزم سے چھین کر معیشت کومارکیٹ اکانومی کی دہلیز تک پہنچا دیا۔ پولینڈ کی پارلیمنٹ میں کئی سیاسی گروہ تھے اور سب کیساتھ مکالمے کے دریچے کھلے رکھے، اکانومی کے اس شفٹ سے حد درجہ امیدیں وابستہ ہو چکی تھیں ، بہرحال ایک پیراڈائم شفٹ میں کامیاب ٹھہرے ، پھر معمولی فرق کی شکست سہی مگر جیت نہ سکے ، بعد ازاں عروج مزید حسرت ہی بنتا چلا گیا۔ جو بھی کہیں پیراڈائم شفٹ دینے پر وہ جمہوریت پسندوں میں پہلے پانچ لوگوں میں شمار ہو رہے ہیں۔ محققین اور ماہر سیاسیات کا کہنا ہے والینسانےجو نظام دیا اس سےعوام نے حد درجہ توقعات باندھ لیں جو شارٹ ٹرم حصول تھا ہی نہیں پس عوام مایوس ہوئے اور والینسا کی ساکھ کو جو مختلف نظریات ، مارکیٹ اکانومی کے جو چیلنجز تھے ان سب چیزوں نے متاثر کیا۔ نرگسیت پیدا ہو جانے اور تعلیم کی کمی جیسے عوامل نے بھی خاصا ناکام بنا ڈالا اور رفتہ رفتہ لوگ دور ہوتے چلے گئے تاہم والینساکے اندر کی لگن نے اپنے تحریکی کھیتی کی آبیاری کو بدستور جاری رکھا اور لیخ والینسا انسٹیٹیوٹ بنایا علاوہ بریں مقامی حکومتوں اور جمہوریت کی ترقی کیلئے تھنک ٹینک اور ایک نئی سیاسی پارٹی منظم کیے۔ گو اسقاط حمل پر سختی کے قانون کی پاداش میںوالینسا کیتھولک اور لبرلزم کے درمیان تختہ مشق بنے رہے لیکن اس یک جہتی کے علمبردار کو شدید نقصان پہنچا۔ بالآخر نقصان پہچانے میں وہ میڈیا بھی پیش پیش تھا جس نے ٹریڈ یونین دور سےاسے ہیرو بنانے اہم کردار ادا کیا۔تاریخ کل کی ہو یا آج کی یہ کھول کھول کر بیان کر دیتی ہے کہ کون پری گورنمنٹ کیا تھا اور پوسٹ گورنمنٹ کیا تھا۔ کتنی پوسٹ ٹرُتھ تھی اور کس قدر گیا لائٹنگ۔ ہمارے ہاں بھی بانی پی ٹی آئی کا دور دیکھ لیں یا ن لیگ کے کرتا دھرتاؤں اور پیپلزپارٹی والوں کو ، اکثر ہاتھی کے دانت پائے جاتے ہیں کہ کھانے اور دکھانے کے اور۔ قصور صرف عوام کی امیدوں کا نہیں ہوتا عوام کی بے جا " پوجا" کا ہوتا ہے جو عوام اور لیڈر دونوں کیلئے نقصان دہ ہوتا ہے ۔ شدت ہر چیز ہی کی بھیانک نتائج پر جا کر ختم ہوتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور شہباز گل سے لےکر شیخ رشید اور جملہ " حکومتی نشریاتی ماہرین" سے اجتناب کیا جائے۔نااہل مشیران کی جگہ وضعدار دشمن کہیں بہتر ہوتے ہیں۔ الیکشن جیتیں یا ہاریں ، حکمران بنیں نہ بنیں لیکن اسٹیٹس مین بننا ضروری ہے جو "سیاستدان" سے کہیں بڑا لیڈر ہوتا ہے اور ملک وملت کیلئے موثر بھی، یہی لیڈر جمہوریت اور معیشت کا پاسبان ہوتا ہے اور مارکیٹ اکانومی سمجھتا ہے۔ کمیونزم ہو یا جمہوریت اور سمجھتا فقط توازن والا ہے نرگسیت والا نہیں!

تازہ ترین