عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری بڑی دھوم دھام سے یہ نعرہ لگا کر اور اس دعویٰ کے ساتھ وطن واپس پہنچ رہے ہیں کہ ان کی آمد پر ملک میں ’’پرامن جمہوری انقلاب کا آغاز‘‘ ہو گا۔ علامہ طاہر القادری ایک مدت سے ’’سیاست نہیں ریاست بچائو ‘‘ کی بات کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کی تمام تر تحریک نہ صرف پر امن ہے بلکہ آئین اور قانون کے مطابق ہے۔ دوسری طرف عمران خان انتخابی دھاندلی کے نام پر ’’سونامی جلسے‘‘ کر رہے ہیں۔ یہ سیاسی گہماگہمی جمہوری نظام کی روح ہے اور ایسا ہونے سے عوام متحرک بھی رہتےہیں لیکن گزشتہ منگل کو ماڈل ٹائون میں منہاج القرآن سیکرٹریٹ پر بیریئر ہٹانے کے نام پر جو بلا جواز آپریشن کیا گیا جس میں 13افراد ہلاک اور 90کے قریب زخمی ہوگئے اس سانحہ نے ساری قوم کو غمزدہ کر دیا ۔ صوبہ کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف انتہائی مغموم ہو ئے ،ان کا کہنا ہے کہ انہیں اس واقعہ کا علم نہیں تھا اور نہ ہی آپریشن کی اجازت لی گئی۔ کہتے ہیں کہ کابینہ کے خصوصی اجلاس میں ان کا یہی موقف تھا کہ ان کے تمام کئے کرائے پر پانی پھیر دیا گیا ہے۔ ایک وزیر کا کہنا تھا کہ اس بات کا سراغ لگایا جائے کہ ان کی صفوں میں کون ایسا دشمن چھپا بیٹھا ہے جس نے ایک ہی وار میں ’’ہیرو سے زیرو‘‘ کر دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے آئی جی سے پوچھا کہ ’’گلوبٹ‘‘ کون ہے۔ اس نے اعتراف کیا کہ ’’پولیس ایجنٹ ‘‘ ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے قومی اسمبلی کے ایک رکن ایک چینل پر یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ گلو بٹ مسلم لیگ (ن) کا کارکن تھا اب اس کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن یہ بھی تو دیکھا جائے کہ جناب گلو بٹ وہاں کیسے اور کیوں لائے گئے۔ اس سانحہ سے جہاں حکومت بہت ہی پریشان ہے وہیں وزیر اعلیٰ ایک امتحان ایک آزمائش سے دوچار ہو گئے ہیں اور ان کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ ’’ان پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں‘‘ اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے وزیر قانون سے استعفیٰ لے لیا ہے اور اپنے پرنسپل سیکرٹری کو تبدیل کر دیا ہے۔ لیکن بات اس سے آگے نکل گئی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے کر انکوائری کرے اور چاہے کوئی بھی اس کا ذمہ دار ہو ، اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ یہ کسی سیاسی جماعت اور افراد نہیں جمہوریت اور ملک کا سوال ہے۔ اگرچہ اس سے قبل کئی ایسے واقعات ہو گزرے ہیں جن میں بہت سے کارکن اور لوگ مارے گئے، وزیر اعلیٰ نے کراچی کے واقعہ کا حوالہ دیا ہے لیکن ماڈل ٹائون کے واقعہ کو کسی جلسے، جلوس ، دھرنے سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔ یہ نہ تو جلیانوالہ باغ تھا نہ ہی گولڈن ٹیمپل پر سکھوں کا دھرنا، نہ ہی بھٹو دور میں قومی اتحاد کی تحریک ، نہ ہی لال مسجد کا واقعہ اور نہ ہی اپریل میں کراچی کا واقعہ۔ یہ تو ’’آبیل مجھے مار‘‘ کا واقعہ تھا۔ عوامی تحریک کے کارکن اپنے صدر دفتر میں موجود تھے۔ پولیس نے بیریئر ہٹانے کے لئے آپریشن کیا اور اس بہیمانہ طریقے سے لوگوں پر تشدد کیا گیا کہ اس کی مثال نہیں ملتی اور ایک اہم بات یہ ہوئی کہ حکومت سمیت ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں اور طبقوں نے اس کی مذمت کی اور عوامی تحریک کی حمایت کا اعلان کیا۔ عوامی تحریک، مسلم لیگ (ق)، سنی اتحاد کونسل اور وکلاء کی جانب سے وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب، وزیر قانون سمیت 21افراد کے خلاف پرچہ درج کرایا گیا ہے۔ اگرچہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے فوری طور پر لاہور ہائیکورٹ کے جج کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن قائم کر دیا تھا اور کہا تھا کہ میں نے کبھی لاٹھی گولی کی سیاست نہیں کی،رپورٹ پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ اگر مجھے ذمہ دار کہا گیا تو ایک منٹ نہیں لگائوں گا، استعفیٰ دے کر عدالت کے سامنے پیش ہو جائوں گا۔ مگر بات اتنی بگڑ گئی ہے کہ عوامی تحریک اور کوئی دوسری جماعت اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ لیکن ’’قابل تعریف‘‘ بات یہ ہے کہ علامہ طاہر القادری اور ان کی حامی کسی اور جماعت نے احتجاجی تحریک چلانے کا صرف اور صرف اس لئے اعلان نہیں کیا کہ ملک اس وقت حالت ِ جنگ میں ہے اور کسی بھی جلسے جلوس سے ضرب عضب متاثر ہو سکتی ہے اور یہ تاثر ابھر سکتا ہے کہ اس آپریشن میں پاک فوج کی حمایت کم ہو رہی ہے۔ سب نے اس آپریشن کی تائید کی ہے اور وہ ہر صورت اسے کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ قوم فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ حکومت کو یہ بھی تو دیکھنا ہو گا کہ وہ کون سے اَن دیکھے ہاتھ ہیں جنہوں نے بلاجواز یہ اقدام کر کے ساری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اب علامہ طاہر القادری کی واپسی پر حکومت کو بھی ایسے ہی رویے کا اظہار کرنا چاہئے جس سے موجودہ سیاسی کشیدگی کو کم کیا جا سکے اور کوئی محاذ آرائی کی صورت پیدا نہ ہو ۔ اس لئے ضروری ہے کہ طاہر القادری کی واپسی پر سیاسی کارکنوں کو ان کے استقبال کے لئے فری ہینڈ دیا جائے اور ان کی سکیورٹی کا مکمل انتظام کیا جائے۔ کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے جس سے موجودہ کشیدگی کی فضا میں مزید تلخی پیدا ہو ۔ یہ خبر خوش آئند ہے کہ وزیر اعظم نے علامہ طاہر القادری کو فری ہینڈ دینے کی ہدایت کی ہے۔
اور آخر میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے جب حضرت مالک بن اشتر کو مصر کا گورنر بنایا تو ان کے نام ایک مراسلہ ارسال کیا جس میں انہیں امور سلطنت کے حوالے سے ہدایات دیں۔ مولا علیؓ کا ارشاد ہے کہ یاد رکھو جو کوئی خدا کے بندوں پر ظلم کرتا ہے تو خدا خود اپنے مظلوم بندوں کی طرف سے ظالم کا حریف بن جاتا ہے اور معلوم ہے کہ خدا جس کا حریف بن جائے اس کی حجت باطل ہو جاتی ہے، وہ خدا سے لڑائی ٹھاننے کا مجرم ہوتا ہے یہاں تک کہ باز آ جائے اور توبہ کر لے۔ خدا کی نعمت کو اس سے بڑھ کر بدلنے والی اور خدا کی عقوبت کو اس سے زیادہ بلانے والی کوئی چیز نہیں کہ آدمی ظلم کو اختیار کرلے۔ یاد رہے کہ خدا مظلوموں کی سنتا اور ظالموں کی تاک میں رہتا ہے۔‘‘