• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج دو اکتوبر کودنیا بھر میں عدم ِ تشدد (اہنسا)کا عالمی دن منایا جارہا ہے، اقوام ِ متحدہ جنرل اسمبلی کی منظور کردہ قرارداد کے تحت ہرسال یہ دن ہندوستان کی اس مہان ہستی کا جنم دن ہے جس نے آج سے ٹھیک156سال قبل برطانوی ہندوستان کی ریاست گجرات میں آنکھیں کھولیں، مہاتما گاندھی نے آخری سانس تک تشدد کے خلاف امن کا پرچار کیا، سادہ طرز زندگی اختیار کرتے ہوئے اپنے وقت کے طاقتوربرطانوی سامراج سے ٹکر لی اور دنیا کو بتلا دیا کہ طاقت کا استعمال وقتی فتح دیتا ہے، اصل فتح انسان کے کردار اور حق و سچائی کی ہوتی ہے۔ گاندھی جی کی پرامن تعلیمات ہندو دھرم کے تین بنیادی اصول عدم تشدد (اہنسا)، سچائی پر ڈَٹ جانا (ستیا گرہ)اور انفرادی حق رائے دہی (سواراج) پر مشتمل ہیں، وہ سمجھتے تھے کہ تشدد وقتی طور پر کچھ نتائج دے سکتا ہے مگر مستقل اور پائیدار امن صرف عدم تشدد سے جنم لیتا ہے۔گاندھی جی حضرت امام حسین سے بھی خصوصی عقیدت رکھتے تھے جنہوں نے اعلیٰ اصولوں کی خاطر اپنے دور کے طاقتور ترین سامراج یزید کے خلاف اپنے اہل خانہ کے ہمراہ جان کی قربانی پیش کی تھی۔ تاہم افسوس کا مقام ہے کہ اگر ایک طرف انکے اپنے آبائی وطن بھارت کی موجودہ قیادت نے گاندھی جی کے امن پسندانہ نظریات کو بھلا دیا ہےتو سرحد پار ہمارے وطن پاکستان میں بھی گاندھی جی کے حوالے سے بہت زیادہ لاعلمی پائی جاتی ہے ،آج بہت کم پاکستانیوں کو اس حقیقت کا ادراک ہوگا کہ مہاتما گاندھی جی بانی پاکستان قائداعظم کے قریبی دوستوں میں شامل تھے، یہ گاندھی جی تھے جنہوںنے سب سے پہلے محمد علی جناح کو قائداعظم کے نام سے پکاراتھا ، آج کے دور میں بہت سے پاکستانی ہموطنوں کیلئے یہ امر حیران کن اور ناقابلِ یقین ہوگا کہ پاکستان کی خاطر سب سے پہلے جان کی قربانی پیش کرنے والے ہندوکا نام مہاتما گاندھی ہے، انہیں ایک شدت پسند نے اس بناء پر موت کے گھاٹ اتا راتھا کیونکہ وہ بٹوارے کے بعد پاکستان کیلئے اثاثوں میں جائز حق اورہندوستان کی مسلمان اقلیتوں کی حفاظت کی خاطر مرن برت (بھوک ہڑتال) پرچلے گئے تھے۔ایک ایسے وقت جب انگریز سامراج کے جانے کے بعد پورا برصغیر مذہب کے نام پر فسادات کی آگ میں جل رہا تھا،میں سمجھتا ہوں کہ مذہبی ہم آہنگی اور قیام امن کی خاطر گاندھی جی کا یہ کارنامہ سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ ہندوستان کے قدیم دھارمک مذاہب بشمول ہندو دھرم، جین مت اور بُدھ مت کا بنیادی تصور اہنسا ہےیعنی کسی جاندار کو نقصان نہ پہنچانا، یہ حق صرف دھرتی کے اصل مالک کو ہی حاصل ہے کہ وہ کسی کی زندگی یا موت کا فیصلہ کرے، ہندو دھرم کے مطابق سچا یوگی وہ ہے جو کسی کو تکلیف نہ دے ، مہابھارت اور رامائن جیسے رزمیہ ادب میں بھی عدم تشدد، برداشت، رواداری اور رحم کا درس ملتا ہےکہ اچھے کرموں کا پھل اچھا اور بُرائی کا پھل بُرا ملتا ہے۔بدھ مت کی پہلی بنیادی شرط اہنسا ہے کہ کسی جاندار کو کسی صورت نقصان نہ پہنچایا جائے۔جین مت میں اہنسا کو سب سے بڑی نیکی کا درجہ حاصل ہے، جین پیروکار کسی چیونٹی یا کیڑے کی جان لینا بھی بہت بڑا پاپ (گناہ)ہے، ہندوستان کے قدیمی دھارمک مذاہب میںکسی کے بارے میں بُرا سوچنا یا بدکلامی کرنا بھی اہنسا کی سنگین خلاف ورزی ہے۔آج اہنسا کا ذکر آتے ہی ہمارے ذہن میں مہاتما گاندھی کا کمزور اورناتواں وجود اُبھرتا ہے جنہوں نے بغیر کوئی ہتھیار اُٹھائے صرف اور صرف اہنسا کی بدولت انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی، ا قوامِ متحدہ کی جانب سے مہاتما گاندھی کے جنم دن کواہنسا کا عالمی دن قرار دینا اس امر کی دلیل ہے کہ اہنسا کسی ایک خطے، شخصیت یا مذہب تک محدود نہیں بلکہ ایک آفاقی سچائی ہے جو وقت اور جگہ کی قید سے ہمیشہ کیلئے آزاد ہے۔گاندھی جی کے دنیا سے اچانک چلے جانے کے باوجود انکے اہنسا پر مبنی افکار رہتی دنیاتک مختلف خطوں کے سماجی رہنماؤں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئے، سپرپاور امریکہ میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے امریکی سول رائٹس موومنٹ کے دوران گاندھی جی کےپیغام ِ امن کو اپنایا اور نسلی امتیاز کے خلاف اپنی جدوجہد کو پرامن انداز میں کامیابی کی منزل تک پہنچایا، جنوبی افریقہ کے عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا نے نسل پرستی کے خلاف اپنی تحریک میں گاندھی جی کو رول ماڈل بنایا ۔تاہم اکیسویں صدی کی دنیا میں یہ سوال بھی شدت سے اٹھتا ہے کہ کیا گاندھی جی کا اہنساکا درس آج بھی کارآمد ہے؟بلا شبہ آج دنیا کے مختلف خطوں بشمول مشرقِ وسطیٰ، یوکرین، افریقہ اور ایشیا کے تنازعات نےانسانیت کو تباہی اور بدامنی کا شکار کردیا ہے،جدید تباہ کُن ہتھیاروں کے انبار اور ٹیکنالوجی کی دوڑ نے مسائل کو حل کرنے کے بجائے مزید پیچیدہ کر دیا ہے، فلسطین کی مقدس سرزمین میں غزہ کے مظلوم باسیوں پر مسلط جنگ اور محاصرہ ہمارے عہد کا سب سے بڑا انسانی المیہ ہے، گزشتہ کئی سالوں سے غزہ میں جاری تشدد نے پورے خطے کا امن تباہ کردیا ہے۔تاہم میری نظر میں آج عالمی پانیوں میں غزہ کے ساحل کی جانب رواں دواں گلوبل صمودفلوٹیلا مہاتما گاندھی کے فلسفہ اہنسا کو تقویت بخشتا ہے، پنتالیس سے زائد ممالک کے ہزاروں نہتےامن پسندوں پر مشتمل یہ بحری قافلہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر خوراک اور ادویات لے کر غزہ کی جانب بڑھ رہا ہے ،میں بطور سربراہ پاکستان ہندو کونسل خراج تحسین پیش کرتا ہوں اپنی جانوں کو ایک اعلیٰ مقصد کی خاطر داؤ پر لگائے فلوٹیلا میں سوار اُن تمام انسان دوست شخصیات کو جنکے پاس بندوقیں نہیں لیکن وہ اپنے عزم اور اخلاقی جرات سے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں ۔آج مہاتما گاندھی کے جنم دن کے موقع پر عدم تشدد کا عالمی دن ہم سب سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم مالک کی دھرتی سے تشدد کے خاتمے کیلئے اپنا کردار مذہبی فریضہ سمجھ کر ادا کریں۔

تازہ ترین