• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا پاکستان 20 نکاتی امن فارمولا کا حصہ بنے گا ؟ بالکل نہیں۔ اس لئے نہیں کہ ہمارے حکمران یا مقتدرہ راسخ العقیدہ، وجہ اتنی کہ 25کروڑ لوگ قہر الٰہی بن کر حکمرانوں پر ٹوٹیں گے۔ اقوامِ متحدہ میں 29نومبر 1947ء کو باضابطہ ’’دوریاستی فارمولا‘‘ قرارداد منظور ہوئی ۔ قرارداد کے تناظر میں 6دسمبر1947ء کو گورنر جنرل پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے فلسطین کی امکانی تقسیم پر ، امریکی صدر ہنری ٹرومین کو ’’تار‘‘ بھجوایا، مختصراً متن واضح ہے۔ ’’قائداعظم نے واشگاف اور سخت الفاظ میں اسرائیلی ریاست کے قیام کی نہ صرف مذمت کی، اسے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کیخلاف قرار دیا ۔ عظیم قائد کا کہنا کہ اگر ایسا ہوا تو یہ قانونی و اخلاقی طور پر غلط، ناقابلِ عمل اور ایک شرمناک قدم ہو گا ۔ عرب ممالک کے 300ملین مسلمان اور کئی غیر مسلم ممالک مزاحمت کرینگے۔ اسرائیل کا قیام عالمی امن کیلئے سنگین خطرہ رہیگا ۔ امریکی صدر ٹرومین اور امریکی عوام سے میرا مطالبہ ہے کہ آپ لوگ انصاف کا ساتھ دیں اور آنیوالے اس طوفانی بحران کو روکیں‘‘۔ عظیم قائد نے اصولی موقف اپنایا اور کھل کر اسرائیل کے قیام کی مخالفت اور فلسطینیوں کے موقف کی حمایت کی۔ پاکستان کی مقتدرہ کو کس نے حق دیا کہ عظیم قائد کے فلسطین پر واضح رہنما اصولوں سے انحراف کرے ۔

15مئی1948 ء کو ریاست اسرائیل کا قیام ہوا، امریکہ پہلا ملک جس نےاسے فوراً تسلیم کیا ۔ جیسے ہی اس کا قیام ہوا، پہلی عرب اسرائیل جنگ شروع ہوگئی۔ مصر، شام، اردن، لبنان ، عراق ، فلسطینی رضاکار سب اسرائیل کیخلاف میدانِ جنگ میں اترے ، اسرائیل کو تمام عالمی طاقتوں امریکہ ، روس ، برطانیہ ، فرانس ، اٹلی وغیرہ کی مکمل مادی ،مالی و عسکری حمایت حاصل تھی ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد خاطر خواہ اسلحہ مشرق ِوسطیٰ میں موجود تھا ۔ عرب اسرائیل جنگ (1948 ) سال بھر جاری رہی ،عربوں کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔

7 اکتوبر2023 کو جب القاسم بریگیڈ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘کے مصداق اسرائیل پر حملہ آور ہوا تو 30 سال سے جاری پُرامن تحریک ( انتفادہ ) کا تسلسل تھا ۔ 30 سال سے جاری پُرامن جدوجہد اور پُر امن مظاہروں کو اسرائیل ٹینکوں گولہ بارود بمباری سے کچل رہا تھا ۔ اگر القاسم بریگیڈ کا حملہ خیرہ کن تو دو سال سے غیر معمولی جاری مزاحمت نے ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے ۔ مجاہدین نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا رکھے ہیں۔ عالمی سطح پر اسرائیل ذلیل و خوار ،سفارتی تنہائی کا شکار ہے ۔ دنیا بھر میں اسرائیل مخالف مظاہرے روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں ۔ اگرچہ امریکہ کی 250سالہ تاریخ بین الاقوامی سطح پر سینکڑوں جھوٹ دھوکہ فریب کاری وعدہ خلافی سے بھری ہے ۔ مگر صدرٹرمپ کے حالیہ شرمناک 20 نکات پچھلے سارے ریکارڈ مات کرنے کو ہیں۔ صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی باہمی رضامندی سے طے معاہدے میں حماس کے خلاف رچائی گئی چال سامنے آگئی ہے ۔ امن معاہدہ حماس کو غیر مسلح، فلسطینیوں کو بے وقعت کرنا ہے ۔ ریاست فلسطین کا تصور قصہ پارینہ بننے کو ہے، اسرائیل کو فیصلہ کن برتری دلاتا ہے۔

گزشتہ سارے عرصہ سے پیوستہ امریکی اسرائیلی حکمتِ عملی بے نقاب ہو چکی ہے ۔ کیمپ ڈیوڈ (1978 ) سے اوسلو ( 1993 ) اور حالیہ ابراہیم معاہدوں تک عرب قیادت کا دباؤ کے آگے جھکنا کبھی بھی انہونا ، انوکھا اور اچھوتا نہیں رہا ۔ مگر اس بار غداری کی شدت اور اس میں ہم آہنگی غیر معمولی ہے۔ مزاحمت کی آخری علامت حماس کو اسرائیل کے زیرِتسلط لانے کی تڑپ آسمان کو چھو رہی ہے ۔ فلسطینیوں کیلئے آج ایک تلخ یاد دہانی کہ گہرے زخم اپنو ں کی عطا کردہ نشانی ہیں ۔ ٹرمپ کے شرمناک 20 نکاتی منصوبے اور سمجھوتہ پسند مسلم حکمرانوں کی بے حسی مسئلہ فلسطین کی کھلی توہین اور تذلیل ہے ۔ 20 نکاتی ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان طے ہونیوالا نام نہاد’’ امن معاہدہ ‘‘ محض فریب اور ڈھونگ ہے ۔ وائٹ ہاؤس کی نئی بیس نکاتی تجاویز میں حماس کے غیر مسلح ہونے، یرغمالیوں کی رہائی اور فلسطینیوں کو ٹرمپ کاروباری کمپنی کے ماتحت چلانا ، یعنی کہ سب کچھ سے مشروط ہے ، فلسطینیوں کا غیرمشروط سرنڈر ۔

شقاوت کی انتہاانسانی امداد ، سرمایہ کاری غزہ کی ناکہ بندی میں نرمی ، مسئلہ فلسطین کی تدفین سے مشروط ہے ۔ بھوک اور پیاس سے بلکتے بچوں ، بیماری اور کسمپرسی میں مبتلا بوڑھوں کیلئے’’انسانیت دوست امداد‘‘ کو حماس کے ہتھیار ڈالنے سے جوڑنا، ذہنی دیوالیہ پن اور اخلاقی پستی کی انتہا ہے۔ خوارک، دوا اور تعمیرِ نو پروجیکٹ کا بطور ہتھیار استعمال ، بے رحمی اور سفارتی بلیک میلنگ کی بدترین شکل ہے۔ امن منصوبہ نہیں ایک سیاسی تاوان ہے ، جسے’’امن‘‘کے نام پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ فلسطین کا نیا وزیراعظم ٹونی بلیئر جنگ عراق کا وار کریمنل بیچ میں کہاں سے آن ٹپکا ۔ ٹونی بلیئر بطور ’’چار ملکی ‘‘ نمائندہ ( 2005ءتا 2017ء) کے متنازع سال فلسطینیوں کوآج بھی یاد ہیں ۔ اس وقت بھی موصوف نے فلسطینی زندگیوں پر فیصلے مسلط کئے ، اسرائیل قبضہ اور فلسطینی بے دخلی کو جاری رکھا ۔ عراق پر 2003ءکی امریکی یلغار کے بعد پال بریمر ایک بیرونی وائسرائے کی طرح مسلط ہوا جو عراقی بربادی پر فیصلے کرتا رہا۔ آج فلسطین کیلئے اسی طرز نظام کو دہرایا جا رہا ہے ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پر نئی کمپنی نے قبضہ کرنا ہے اور مسئلہ فلسطین کو دفن کرنا ہے ۔’’ استحکام‘‘ اور’’ معاشی بحالی‘‘کے نام پر فلسطینیوں کی بیخ کنی، نام و نشان مٹانا ہے ۔ منصوبے کےمطابق طے کہ فلسطینیوں کو کسی قسم کا حق ِدفاع نہیں دیا جائیگا۔ زورزبردستی ،مستقل غلام بنانا ہے۔ بھوکے عوام کو روٹی کے بدلے سیاسی ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا ، امریکہ کی 250 سال سے جاری جرائم پالیسی کا تسلسل ہی تو ہے ۔ مسلمان ملکوں کی فوج کو ممد و معاون اور خدمتگار بننا ہے۔ یقین دلاتا ہوں کسی بھی غیر ملکی فوج نے اگر غزہ میں قدم رکھا تو اسے سخت مزاحمت کا سامنا ہوگا ،بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑئیگا۔ عزالدین القاسم بریگیڈز اپنی پوری قوت سے اسرائیل کیخلاف آج بھی نبردآزما ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ 1983ءمیں بیروت میں جیسے ہی غیرملکی فوج آئی تو اس پر شدید حملے ہوئے ، 241 امریکی فوجی اور 58فرانسیسی فوجی مارے گئے ۔ خدشہ ہے کہ کسی قسم کی امن فوج کو ویسے ہی بھیانک نتائج کا سامنا کرنا ہوگا ۔ 20نکاتی امن منصوبےکو حماس نے آج مسترد کر دیا ہے یعنی حماس ڈٹ چکی ہے۔ مطلب ، مسئلہ فلسطین زندہ و تابندہ ہے ۔ ایران کو سیلوٹ ! واحد اسلامی ملک کہ بغیر کسی کنفیوژن ڈٹ کر فلسطینیوں کیساتھ کھڑاہے ۔ پچھلے چند دنوں سے روسی اسلحہ اور ٹیکنیکل اسٹاف کی ایران دھڑا دھڑ آمد ، دوسری طرف پچھلے2دنوں میں امریکی اسلحہ کا قطر میں مزید انبار لگانا ، ایران پر کسی بڑے حملہ کی تیاری ہے ۔ بڑی جنگ تو ابھی شروع ہی نہیں ہوئی ، جنگ تو اب شروع ہونے کو ہے ۔ آنیوالے دنوں میں مسئلہ فلسطین ہمیشہ زندہ باد ، حماس متحرک اور مستعد رہے گی ۔ میرا پوچھنا بنتا ہے کہ ’’ہماری ٹانگیں کیوں کانپ رہی ہیں‘‘۔

تازہ ترین