• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلوچستان کا ایک خاموش طبع سردار کراچی کے ایک گوشے میں خاموشی کی زندگی گزارتے ہوئے 10جون کی رات ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گیا۔ آزاد بلوچستان کے پرچم میں لپٹے اس کی میت کے تابوت کو کوہلو میں کاہان کے آبائی قبرستان کی بجائے کوئٹہ میں نیو کاہان کے قبرستان شہدا کی ایک لحد میں اتار دیاگیا۔ آخری سلام محبت پیش کرنے کے لئے اس موقع پر ہر سیاسی مکتبہ فکر اور ہر قبائلی و سماجی طبقے کے ہزاروں سوگوار موجودتھے۔ ان میں بوڑھے بھی تھے اور جوان بھی، عورتیں بھی اور بچے بھی۔ عورتیں اور بوڑھے رو رہے تھے جبکہ بی ایس او (آزاد) سے وابستہ نوجوان آزادی کے حق میں جذباتی نعرے لگا رہے تھے۔86سال کی عمر عزیز گزارنے کے بعد آسودہ خاک ہونے والا یہ سردار جنگجو بلوچوں کے نامور قبیلے مری کا سربراہ تھا جسے پاکستان کے اندر ہی نہیں باہر بھی دنیا نواب خیر بخش مری کے نام سے جانتی ہے۔ ایک سے زائد مرتبہ’غداری‘ کے الزام میں جیلیں کاٹنے والے اس سردار کو سفر آخرت پر روانہ ہوتے وقت مملکت کی طرف سے یہ سرکاری اعزاز بخشا گیا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف کی خصوصی ہدایت کے تحت اس کی میت سی 130طیارے کے ذریعے کراچی سے کوئٹہ پہنچائی گئی۔ کاش اس طرح کا کوئی اعزاز اس کی زندگی میں اس کے سیاسی فلسفہ و فکر کی پذیرائی کی صورت میں ایک بار بھی دیاجاتا تو شاید بلوچستان ویسا نہ ہوتا جیسا آج دکھائی دے رہا ہے۔
ایک وقت تھا جب بلوچستان کی سیاست پر چار بھاری بھر کم شخصیات چھائی ہوئی تھیں۔ لوگ انہیں ’’چار یار‘‘ کہتے تھے۔ نواب خیر بخش مری ان میں سے ایک تھے۔ دوسرے نواب محمد اکبر بگٹی اور تیسرے میر غوث بخش بزنجوتھے۔ اللہ تعالیٰ سردار عطا اللہ مینگل کی زندگی صحت و تندرستی کے ساتھ دراز کرے پرانی جہاندیدہ شخصیات میں سے اب وہی باقی رہ گئے ہیں۔ عملی سیاست سے تقریباً لاتعلق ہونے کے بعد وہ اپنے شدید تحفظات کے باوجود بلوچستان کا رشتہ پاکستان سے جوڑے رکھنے کے حق میں آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔
نواب بگٹی تو پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالنے والوں میں سے تھے۔ نواب مری بھی پاکستان مخالف نہیں تھے۔ درحقیقت بلوچستان کی سیاست میں وہ بہت تاخیر سے داخل ہوئے۔ اس کی وجہ یہ بتاتے تھے کہ ان کی طبیعت زندگی کے آرام و آسائش کو چھوڑ کر خارزارسیاست میں الجھنے پر مائل نہیں تھی۔ انہوں نے ایچی سن کالج لاہور میں تعلیم حاصل کی جہاں وہ نواب اکبر بگٹی سے ایک درجہ جونئیر تھے۔ نواب بگٹی کے مطابق کالج میں وہ نماز باقاعدگی سے پڑھتے تھے۔ ان کی شلوار ملائوں کی طرح ٹخنوں سے اوپر ہوتی تھی۔ عملی زندگی میں وہ جاہ و منصب کے کبھی طلب گار نہیں ہوئے۔1962کے انتخابات میں وہ حصہ نہیں لینا چاہتے تھے مگر نواب بگٹی سردار مینگل اور میربزنجو کے مسلسل اصرار پر آمادہ ہوئے اور قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔1970کے انتخاب کے بعد انہیں بلوچستان کی گورنری کی پیشکش ہوئی مگر انہوں نے انکار کردیا۔ البتہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں حصہ لیتے اور منتخب رہے۔ قومی اسمبلی میں وہ کم بولے مگر جب بھی بولے بلوچستان کے حقوق و اختیارات کی زبردست وکالت کی۔ یہ وکالت پاکستان سے علیحدگی کے لئے نہیں تھی۔مگر ’’چار یار‘‘ ہمیشہ حکمرانوں کے نشانے پر رہے۔ اس دوران ان میں باہمی اختلافات بھی پیدا ہوئے اور وہ اکٹھے بھی نہ رہے پھر بھی مقتدرہ کے نزدیک ہمیشہ غدار اور تعذیب کے سزا وار ٹھہرے۔ ایوب خان کے دور میں گورنر نواب کالاباغ نے نواب بگٹی ،سردار مینگل اور نواب مری کی سرداریاں ختم کر دیں اور ان کی جگہ نئے سردار نامزد کر دیئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تینوں قبیلوں نے حکومت کے نامزد سرداروں کو قتل کر دیا اس طرح وفاق اور ان سرداروں کے درمیان دوریاں مزید بڑھ گئیں۔ نواب مری اس صورت حال میں سب سے زیادہ دل برداشتہ ہوئے۔ اور بلوچستان کی داخلی خود مختاری پر ان کا ایمان مزید پختہ ہو گیا مگر اس ’’خود مختاری‘‘ کا مطلب اب بھی ’’آزادی‘‘ نہیں تھا۔
نواب خیر بخش مری 1973 کے آئین کے معماروں میں سے تھے۔ وہ نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے رکن تھے۔جو صوبوں کی داخلی خود مختاری کے لئے جدوجہد کر رہی تھی۔ آئین میں صوبوں کے اختیارات میں اضافہ کے لئے نیپ کے بیشترمطالبات شامل کر لئے گئے۔ نواب مری مطمئن نہ ہونے کے باوجود خاموش رہے مگر جب ان اختیارات پر عملدرآمد موخر کرنے کا فیصلہ ہواتو نواب صاحب اس سارے عمل سے لاتعلق ہو گئے۔ نیپ کے باقی لیڈروں نے آئین کی دستاویز پر دستخط کر دیئے مگر نواب مری نے نہیں کئے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت اب یہ سارے اختیارات صوبوں کے حوالے کر دیئے گئے ہیں۔ اگر 1973 میں ہی ایسا کر لیا جاتا تو نواب مری جیسے لوگ وفاق پاکستان سے برگشتہ نہ ہوتے۔ ان کی ناراضی اس وقت دو چند ہو گئی جب سردار عطاء اللہ مینگل کی زیر قیادت بلوچستان کی پہلی منتخب جمہوری حکومت کو برطرف کر کے اہم بلوچ لیڈروں کو گرفتارکر لیا گیا اور نیپ پر پابندی لگا دی گئی۔ گرفتار ہونے والوں میں نواب مری بھی شامل تھے۔
درحقیقت وفاقی مقتدرہ جب بھی بلوچ ’’غداروں‘‘ کی پکڑ دھکڑ کا فیصلہ کرتی، نزلہ سب سے پہلے نواب مری اور سردار مینگل پر ہی گرتا۔ سردار مینگل تو پھر بھی دل کی باتیں زبان پر لاتے رہتے تھے جو اخباروں میں شائع بھی ہوتیں مگر نواب مری ’’خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری‘‘ کی تصویر بنے رہے۔ روایت ہے کہ ایک بار نواب صاحب کو رام کرنے کے لئے ایوب خان نے ملاقات کے لئے بلایا اور ملک کی صورت حال اور بلوچستان کے حواے سے تقریباً ایک گھنٹہ تک بولتے رہے۔ نواب صاحب خاموشی سے سنتے رہے۔ فیلڈ مارشل کو گمان ہوا کہ شاہیں زیر دام آ گیا ہے تو نواب صاحب کا ردعمل معلوم کرنے کے لئے گفتگو کا سلسلہ روکا۔ ایوب خان کو خاموش دیکھ کر نواب صاحب نے پہلی بار زبان کھولی بولے ’’صدر صاحب آپ کی بات اگر ختم ہو گئی ہے تو میں جائوں؟‘‘ ایوب خان سٹپٹا کر رہ گئے۔ نواب بگٹی کہتے ہیں کہ پارٹی کی میٹنگز یا حکومت سے مذاکرات کے دوران نواب مری عموماً خاموش بیٹھے رہتے، ان کی حکمت ان کے کم بولنے میں ہی تھی۔ بولتے تو ان کی گفتگو اتنی فلسفیانہ ہوتی کہ اکثر لوگوں کے سروں کے اوپر سے گذر جاتی۔ نواب صاحب بلوچستان کے حقوق کی وکالت کرنے پر کئی بار جیل گئے۔ غداری کے ایک مقدمے میں انہوں نے اپنی صفائی بھی پیش کیکہ ’’ہمارے بیانات پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کے خلاف نہیں ہیں‘‘ دراصل دوسرے سرداروں اور رہنمائوں کی طرح وہ ایک عرصہ تک صوبے کے لئے داخلی خود مختاری ہی چاہتے تھے۔ مگر یہ مطالبہ بھی جب غداری ہی ٹھہرا تو ان کے خیالات تبدیل ہونے لگے۔ ایک مرتبہ ناراض ہو کر افغانستان میں جلاوطنی بھی اختیار کی مگر پھر واپس آ گئے۔ بلوچستان لبریشن آرمی (پی ایل اے) کی تخلیق وفاق پاکستان سے ان کی ناراضی کی آخری علامت تھی۔ عسکریت پسندوں کی اس تنظیم کے وہ رہبر تھے جبکہ ان کے بیٹے اور بلوچستان کے سابق وزیر داخلہ حیر بیار مری اس کے سربراہ ہیں۔ ان کے سب سے بڑے بیٹے جنگیزخان مری مسلم لیگ ن کے نائب صدر، صوبائی وزیر اور نواب صاحب کے متوقع جانشین ہیں۔ مری قبیلے کے لئے یہ صورتحال بڑی دلچسپ ہو گی۔ اس کا نواب وفاق پاکستان کا سرگرم حامی جبکہ نواب کا بھائی آزاد بلوچستان کی تحریک چلا رہا ہو گا۔ وفاقی مقتدرہ تنگ نظری کے خول سے نکلے تو مریوں کو واپس قومی دھارے میں لا سکتی ہے۔
تازہ ترین