• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

بعض اوقات انسان کسی چیز کی خواہش کرے یا اُسے کسی شئےکی ضرورت ہو، اور وہ غیر متوقع طور پر فوری مل جائے، تو یقیناً اسے حیرت انگیز ہی تصوّر کیا جائے گا۔ اس حوالے سے میرے والد کے ساتھ پیش آنے والے یہ دو واقعات بظاہر معمولی ہیں، لیکن میرے لیے ناقابلِ فراموش اور حیرت کا باعث ہیں، جن کی توجیہہ پیش کرنے سے قاصر ہوں۔ یہ حیران کن واقعات ایسے ہیں، جن کے بارے میں سوچ کر آج بھی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

پہلا واقعہ، نومبر 2019ء میں اُس وقت پیش آیا، جب ہم کراچی کے علاقے کورنگی میں واقع باغِ کورنگی سے شاہ فیصل کالونی شفٹ ہورہے تھے۔ شفٹنگ سے دو روز قبل ہم نے گھر کا سارا سامان پیک کرلیا تھا، تاکہ عین موقعے پر کسی دشواری کا سامنا نہ ہو۔ صرف ڈبل بیڈ (پلنگ) کھولنا باقی رہ گیا تھا، جس کے چوبیس نٹ بولٹ کھولنا کارِدارد سے کم نہ تھا۔ اس کے لیے سترہ نمبرکا پانا درکار تھا، جو ہمارے پاس نہیں تھا۔ 

جب سامان منتقل کرنے کے لیے ٹرک کے آنے میں صرف دو گھنٹے رہ گئے، تو والد کو فکر لاحق ہوئی۔ انھوں نے ایک پرانے پلاس سے بیڈ کے نٹ بولٹ کھولنے کی کوشش کی، مگر کوئی بولٹ ٹس سے مس نہ ہوا، کچھ دیر تگ و دو کے بعد سوچا کہ قریبی مارکیٹ میں واقع موٹر میکینک کی دکان سے سترہ نمبر کا پانا اُدھار یا کرائے پر لے آتے ہیں، اور اگر وہاں سے بھی نہ ملا تو کسی ہارڈ ویئر کی دکان سے خرید لیں گے۔

یہ سوچ کر والد صاحب ہم دونوں بھائیوں کو اپنی بائیک پر بٹھا کر مارکیٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ابھی ہم گلی سے نکل کر ذیلی سڑک پر پہنچے ہی تھے کہ اچانک موٹر سائیکل سے کچھ گرنے کی آواز آئی، یوں محسوس ہوا، جیسے لوہے کی کوئی چیز چَھن سے گری ہو۔ والد صاحب نے فوراً بائیک روک کر دیکھا، تو حیرت سے اُن کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، کیوں کہ وہاں سترہ نمبر کا وہی پانا پڑا ہوا تھا، جس کے حصول کے لیے ہم کسی میکینک یا ہارڈ ویئر کی دکان کی طرف جارہے تھے۔ 

ہم جس ذیلی سڑک سے گزر رہے تھے، اس کے ایک طرف کچرا کنڈی تھی اور چاروں طرف کچرے کے ڈھیر پڑے تھے، جب کہ دوسری طرف مکانات تھے، لہٰذا اس بات کا امکان کم ہی تھا کہ یہ کسی کے بیگ یا تھیلے سے گرا ہو۔ والد صاحب نے پانا اٹھا کر چاروں طرف دیکھا، کچھ دیر حیرت سے سوچتے رہے، پھر ہمیں بائیک پر بٹھا کر گھر پہنچے اور چند ہی منٹوں میں بیڈ کے تمام بولٹز بہ آسانی کھول دیئے۔ 

تھوڑی دیر بعد ٹرک آگیا، تو سارا سامان لوڈ کرواکے شاہ فیصل کالونی میں واقع نئے گھر پہنچ گئے، ہم نے یہ مکان کرائے پر لیا تھا، جو پہلی منزل پر واقع تھا۔ ٹرک سے سارا سامان اترواکر گھر میں رکھا۔ یہاں بھی پلنگ کے حصّوں کو جوڑنے کے لیے وہ پانا بہت کام آیا، تمام نٹ بولٹ بہ آسانی ٹائٹ کرکے چند منٹوں میں بیڈ تیار کردیا۔ وہ سترہ نمبر کا پانا اب بھی ہمارے ٹول باکس میں موجود ہے اور اکثر اوقات کام آتا ہے، جسے دیکھ کر ہم حیرت میں پڑ جاتے ہیں۔

دوسرا واقعہ جون 2020ء کا ہے۔ شدت کی گرمی پڑ رہی تھی، سورج کی تیز شعاؤں اور گرم ہواؤں نے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ہمارے کمرے میں نصب پرانا ائرکنڈیشنر گرمی کی تاب نہ لاکر خراب ہوگیا تھا، لہٰذا اس کی مرمّت کے لیے والد صاحب نے میکینک بلوایا۔ میکینک کے ساتھ اس کا چودہ پندرہ سال کا ایک لڑکا بھی تھا۔ 

انہوں نے ائرکنڈیشنر اتار کر بالکونی میں رکھا اوراس کا اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد کچھ خرابی کی نشان دہی کرتے ہوئے بتایا کہ اس میں گیس بھی بھروانی ہوگی۔ والد صاحب نے آمادگی کا اظہار کردیا، تو میکینک اپنے بیٹے کے ساتھ کچھ ضروری پُرزے اور گیس کا ڈرم بھروانے کے لیے چار ہزار روپے لے کرمارکیٹ کی طرف چلا گیا۔ جاتے ہوئے خاص طور پر یہ ہدایت کی کہ آؤٹر اور اِنر دھونے کے لیے ایک چھوٹی بالٹی کا ضرور بندوبست کرلیں۔ 

ہم نے اُسے گھر میں رکھی ایک بالٹی دی، تو کہنے لگا۔ ’’یہ بہت بڑی ہے، اس کام کے لیے ہمیں تقریباً بارہ سے پندرہ انچ کی بالٹی درکار ہے، آپ اس کا بندوبست کرلیں۔‘‘ گھر میں اور کوئی دوسری بالٹی نہیں تھی، لہٰذا وہ دونوں جب مارکیٹ چلے گئے، تو ہم بھی یہ سوچ کر بالکونی میں اوزار اور دیگر سامان اُسی طرح چھوڑ کر کمرے میں آگئے کہ میکینک مارکیٹ سے آئے گا، تو دیکھا جائے گا۔ ابھی ہمیں کمرے میں پہنچے چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ اچانک زور دار طوفانی ہوائیں چلنے لگیں، ہوائیں اس قدر تند و تیز تھیں کہ آس پاس کے گھروں سے ٹین کی چھتیں اور دیگر سامان اُڑا کر لے گئیں۔ 

کئی درخت گر گئے، تھوڑی دیر بعد طوفانی ہواؤں کے جھکّڑ کا زور ٹوٹا تو ہم بالکونی کی طرف گئے، وہاں میکینک کے ٹول بیگ کے ساتھ اس کا دیگر سامان بکھرا پڑا تھا۔ وہیں سامان کے بیچوں بیچ ایک چھوٹی گلابی رنگ کی بالٹی دیکھ کر ہمیں حیرت کا جھٹکا لگا کہ یہ کہاں سے آگئی۔ یعنی یہ میکینک کی بتائی ہوئی وہی مطلوبہ بالٹی تھی، جس کا بندوبست کرنے کے لیے وہ ہمیں خاص ہدایت کرکے گیا تھا۔ 

ہم اس بات پر حیرت زدہ تھے کہ جس طرح اور جس سائز کی بالٹی کے لیے میکینک نے ہمیں ہدایت کی تھی، بالکل اسی سائز کی بالٹی نہ جانے کہاں سے آگئی۔ خیر، چند لمحوں بعد دونوں میکینک بھی آگئے۔ اُن کی نظر سامنے رکھی بالٹی پر پڑی، تو فوراًتائیدی انداز میں گردن ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں، یہ بالٹی بالکل صحیح ہے، کہاں سے لائے، آپ کے پاس تو تھی نہیں؟‘‘ ہم نے اس کی طرف حیرت سے دیکھا اور کہا۔ ’’یہ بالٹی ہم نہیں لائے، نہ جانے یہ کہاں سے آگئی؟‘‘ یہ سن کر میکینک بھی حیران رہ گیا، لیکن چند ثانیے حیرت سے ہماری طرف تکنے کے بعد اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔

بہرحال، مذکورہ بالا دونوں واقعات میرے لیے آج بھی ناقابلِ فراموش اور سخت حیرت کا باعث ہیں کہ جس وقت مجھے جس چیز کی ضرورت تھی، اُسی وقت قدرت کی طرف سے اس کا انتظام ہوگیا، یعنی مجھے جس وقت سترہ نمبر کے پانے کی ضرورت تھی، تو بالکل اسی نمبر کا پانا مجھے راستے سے اُس وقت ملا، جب میں اس کے حصول کے لیے گھر سے نکلا اور اسی طرح چھوٹی بالٹی، جو یقیناً طوفانی ہوا سے اُڑ کر ہماری بالکونی میں آکر گری ہوگی، عین اُسی وقت ہمیں ملی، جب اس کی شدید ضرورت تھی۔ 

سترہ نمبر کا وہ پانا اور گلابی بالٹی پانچ سال گزرنے کے باوجود آج بھی میرے پاس موجود اور زیرِاستعمال ہیں۔ ان دونوں واقعات کو آج بھی یاد کرتا ہوں، تو حیران و سرگرداں رہ جاتا ہوں کہ میرے ربّ کے فضل و کرم کا بھی کیا ٹھکانہ، پردئہ غیب سے اُس وقت مدد کی، جب ہم مذکورہ چیزوں کی تلاش میں تھے، قدرت کی جانب سے اُن کی موقعے پر دست یابی سے بروقت ہمارا کام بن گیا۔ (محمد اشعر، کراچی)

سنڈے میگزین سے مزید