• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

بہرحال 1977ءکے انتخابات ، نتائج کیخلاف تحریک، بھٹو اور پی این اے کے درمیان مذاکرات اور نئے الیکشن پر اتفاق رائے اور معاہدہ یہ سب سیاست کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے دیکھا اور سمجھنے کی کوشش کی اور سب کے درمیان ہونیوالی سازشیں جسکا ڈراپ سین 5جولائی 1977کو ملک میں 30سال میں تیسرے مارشل لا کی صورت میں بھی دیکھنے کو ملا۔ 90روز میں نئے انتخابات کا وعدہ اور پھر اس ’عہد‘ کی وعدہ خلافی بھی دیکھی جس میں کچھ ہاتھ ہمارے دائیں بازو کے صحافی اور دانشوروں کا بھی تھا۔ ملک میں سنسر شپ لگی تو میں نے سوچھا آخر ایسے ماحول میں صحافت کیسے کی جائیگی پھر میرے ہی ایک صحافی کزن نے کہا، ’’اس کا ایک اپنا مزہ ہوتا ہے سنسر شپ میں بات کیسے کی جاتی ہے اور لکھا کیسے جاتا ہے‘‘۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب طلبہ سیاست بھی اپنے عروج پر تھی ملک میں مارشل لا لگا تو ایک طرف اپوزیشن پاکستان قومی اتحاد کے حمایتی برنس روڈ اور دوسرے علاقوں میں مٹھائی تقسیم کر رہے تھے تو دوسری طرف وہ نظریاتی تھے جو بھٹو کی بہت سی پالیسیوں سے اختلاف بھی رکھتے تھے، مارشل لا کی مذمت میں آگے آئے اور حکومت اپوزیشن معاہدہ کے بعد اس کو بلا جواز اور سازش قرار دیا۔جب میں عملی صحافت میں آیا تو اس زمانے کے بعض مرکزی کرداروں سے انٹرویو کیے جن میں مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم، پروفیسر غفور مرحوم، بابائے سوشلزم شیخ رشید احمد مرحوم، شیخ رفیق اور عبدالحفیظ پیرزادہ مرحوم شامل ہیں اور پی این اے کے سب سے متنازع کردار ایئر مارشل (ر) اصغر خان مرحوم۔ اس کا ذکر میں آگے کروں گا ابھی تو طالب علمی کا زمانہ ہے تاہم اس زمانے میں بھی جامعہ کراچی کے دوست حاصل بزنجو مرحوم کے والد میر غوث بخش بزنجو صاحب سے چند ملاقاتیں حاصل کیساتھ ہی ہوئیں۔ میر صاحب بہت ہی سلجھے ہوئے نرم مزاج کے انسان تھے انہوں نے 1973 ءکے آئین میں بھی مرکزی کردار ادا کیا، خاص طور پر جب نیشنل عوامی پارٹی نے آئینی کمیٹی کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ اسی طرح جب شعبہ صحافت کے طلبہ و طالبات گرمی کی چھٹیوں میں سوات کے دورے پر گئے تو ہم کچھ سیاسی ذوق رکھنے والوں نے اپنے ایک کلاس فیلو قاسم جان مرحوم سے کہا ’’یار ولی خان اور بیگم نسیم ولی سے ملنا ہے۔‘‘ یہ ملاقات ہم نے اپنے ٹیچرز سے پوچھے بغیر کی جو میری زندگی کا ایک یاد گار لمحہ تھا۔ خان صاحب کی تاریخ پر گرفت اور ان کا وہ تاریخی جملہ، ’’جو گولی آج ہم کابل کی طرف چلا رہے ہیں کل پلٹ کر اسلام آباد بھی آ سکتی ہے۔‘‘ میں نے 1977 ءمیں 90 روز کی انتخابی مہم بھی دیکھی اور الیکشن ملتوی ہونے سے چند روز پہلے کراچی کے تاریخی نشتر پارک میں بیگم نصرت بھٹو کا آخری جلسہ بھی، جسکے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ الیکشن کیوں ملتوی ہوئے۔ اس سے پہلے جب مارشل لا کے بعد بھٹو کی نظر بندی ختم ہوئی تو جس طرح اس کا استقبال ہوا وہ اس کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ ایک بار مولانا نورانی نے مجھے بتایا تھا صحافت میں آنے کے بعد کہ ’’حقیقت یہی تھی کہ ہماری بھر پور مہم کے بعد بھی 1977ءمیں پی این اے کے مقابلے میں پی پی پی جیت رہی تھی بس فرق تھا تو اتنا کہ تگڑی اپوزیشن آئی۔ بھٹو صاحب کو بلا مقابلہ جیتنے اوران کے دیکھا دیکھی وزرائے اعلیٰ کو اس کی ضرورت نہیں تھی۔‘‘ اتفاق اور اختلاف اپنی جگہ مگر 70کی دہائی کے بیشتر سیاستدان کبھی ’مذاکرات‘ کے راستے بند نہیں کرتے تھے چاہے وہ آئین کی تشکیل ہو ، وزیراعظم کا پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیکر شملہ جانا ہو یا آخر میں نئے الیکشن کرانے پر رضا مندی ہو۔ پھر یہ بھی ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیدی گئی اور اس پرکچھ پارٹی رہنمائوں کی ’خاموش رضا مندی‘ اور اپوزیشن جماعتوں کی خوشنودی سب ہی تو دیکھنے کو ملا ۔ان سارے زخموں کے بعد بھی 1981ءمیں تحریک بحالی جمہوریت کا قیام ایم آر ڈی کے نام سے حوصلہ تھا بے نظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کا۔ مارشل لا کے فوراً بعد 90روز کے الیکشن ملتوی ہوئے تو دونوں خواتین کو نظر بند کر دیا گیا۔ ہزاروں کارکن گرفتار ہوئے، کوڑے لگے اور ’جئے بھٹو‘ کہتے پھانسی چڑھ گئے۔ کچھ نے خود سوزی کی۔ باقی لیڈران گھروں میں بیٹھ گئے یا باہر چلے گئے۔صحافیوں کی سب سےبڑی تحریک شروع ہوئی1977ءمیں مساوات اخبار بند ہونے پر تو میں ابھی یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا۔ تاہم ہم نے یونیورسٹی میں اس تحریک کی حمایت میں جلسے بھی کیے۔ جلوس بھی نکالا اور پمفلٹ بھی تقسیم کیے۔ یہ وہ وقت تھا جب میں منہاج برنا اور نثار عثمانی صاحب سے واقف نہیں تھا بس نام سنا تھا۔ بس اب صحافت کا سفر شروع ہونے ہی والا تھا ایک سمیسٹر رہ گیا تھا کہ اطلاع آئی پی آئی اے کا جہاز اغوا کر لیا گیا ہے اور ہائی جیکرز اپنا تعلق ’الذوالفقار‘ نامی تنظیم سے بتا رہے ہیں۔ اس واقعہ سے ہفتہ بھر پہلے دو تین واقعات جامعہ کراچی میں ایسے ہوئے تھے کہ خاصی کشیدگی پائی جا رہی تھی جس میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک کارکن حافظ اسلم ہلاک بھی ہوئے۔ گو کہ اس جھگڑے کا تعلق نہ جامعہ سے تھا نہ اس تنازع میں جمعیت اور اس کیخلاف طلبہ تنظیمیں ملوث تھیں بعد میں پتا چلا کہ یہ رفیق افغان مرحوم جو بعد میں ایک اخبار کے مالک بنے ان کا اور سلام اللہ ٹیپو جس نے جہاز اغوا کیا تھا کے درمیان ناظم آباد میں محلے کا جھگڑا تھا۔ مگر ہوا یوں کہ جمعیت نے اپنے مخالفین کا جامعات میں رہنا مشکل بنا دیا اور یوں وہ ’سمیسٹر‘ بعد میں جا کر مکمل کیا اور اسی دوران کراچی کے شام کے اخبار ’دی اسٹار‘ میں نوکری کر لی۔

1982 ءکے بعد سے اس ’سیاسی سفر‘ میں بہت سے سیاسی رہنمائوں کو قریب سے دیکھنے اورانکی سیاست کو سمجھنے کا موقع ملا بس دیکھنے کا انداز اب بحیثیت صحافی تھا۔ ’خبر‘ میں کبھی بددیانتی نہیں کی یہی وجہ تھی کہ ہر جماعت کے لوگوں سے اچھے تعلقات رہے۔ ایسے میں ایم آر ڈی کے زمانے میں تو خیر سب سے ملاقاتیں رہیں مگر ایک سیاسی مقدمہ ’جام ساقی کیس‘ کے دوران متعدد سیاسی رہنما گواہی دینے آئے ان کمیونسٹوں کے دفاع میں جن میں محترمہ بے نظیر بھٹو، ولی خان، بزنجو اور تقریباً 20 سے 25 رہنما،دلچسپ امر یہ تھا کہ کیس ’ملٹری کورٹ‘ میں تھا جو کشمیر روڈ پر واقع تھا۔ جن رہنمائوں پر مقدمہ چلا ان میں جام کے علاوہ پروفیسر جمال نقوی، سہیل سالگی، امر لال، شیر شر، بدر ابڑو، کمال وارثی شامل تھے اور ان ہی کے ایک ساتھی، ’نظیر عباسی‘ کو قید کے دوران ٹارچر کر کے مارنے کا الزام بھی سامنے آیا۔ اتفاق سے مجھے اس کو مارنے کی خبر ڈائو میڈیکل کالج کے ایک ڈاکٹر نے دی ۔اس نے نظیر کی باڈی کو پہچان لیا اس ڈاکٹر کا تعلق این ایس ایف سے رہا تھا۔ اب تو اس کیس پر کئی کتابیں آ چکی ہیں ۔ میں نے ’اسٹار‘ میں اس کیس کو پورا کور کیا جو میری صحافت کے ابتدائی سال تھے۔ جس دن بےنظیر آئیں تو پورا شہید ملت روڈ اور کشمیر روڈ تقریباً ’سیل‘ کر دیا گیا تھا۔ یہ بھٹو کی پھانسی کے بعد بے نظیر کو نظر بندی میں پہلی بار لایا گیا اور انہوں نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ 14اگست 1983کو ایم آر ڈی تحریک کا آغاز ہوا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین