آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میںہونے والے احتجاج نے اس امر کی نشاندہی کردی ہے کہ آزاد کشمیر کےعوام سب اچھا ہے سننے کے لیے تیار نہیں ہیں تاہم جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور حکومتی مذاکراتی ٹیم ایک معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ عوام ان اقدامات پر کیوں مجبور ہوئے جس کا نتیجہ احتجاج اور ہلاکتوں کی صورت میں ہمارے سامنے آیا۔عوامی احتجاج کے مناظر اس خطہ میں ہمارے سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں ۔ مثال کے طور پر بنگلہ دیش اور نیپال کی حالیہ صور تحال آپ کے سامنے ہے ۔جہاں ہر شہری طرز حکمرانی اور اشرافیہ کے اللوں تللوں سے نالاں نظر آیا جس کے نتائج پُرتشدد احتجاج کی صورت میں ہمارے سامنے آئے۔احتجاج کی ہر روش وبا کی مانند ہے جو پھیل بھی سکتی ہے تاہم آزاد کشمیر ایک پُرامن اور خوشحال خطہ ہےجس کے اندر کوئی پراثر احتجاجی تحریک کبھی بھی پنپ نہیں سکی۔آزاد کشمیر کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے بجلی اور آٹے کی بڑھتی قیمتوں کے خلاف گزشتہ سال بھی احتجاج کا راستہ اختیار کیا تھا جس کے نتیجے میں مرکزی اور آزاد کشمیر کی حکومت کو ایک معاہدہ کرنا پڑا لیکن اس دفعہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی بھر پور سیاسی ومعاشی چارٹر آف ڈیمانڈ کے ساتھ سامنے آئی ہے۔اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ پاکستان کے اندرمختلف نوعیت کی تحریکیں چلتی رہی ہیں لیکن ان کے اثرات خطہ کشمیر پر کسی موثر تحریک کی صورت میں سامنے نہیں آئے ۔گڈگورننس کا مطالیہ اس قدر زور پکڑ گیا کہ عوامی احتجاج پر تشدد صور تحال اختیار کر گیا۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے دیگر مطالبات میں سب سے بڑا مطالبہ مہاجرین کی 10نشستوںکے خاتمے کی صورت میں سامنے آیا۔ ایک بات پورے پاکستان میں زبان زدِ عام ہے کہ آزاد کشمیر میںاسی پارٹی کی حکومت قائم ہوگی جس کی حکومت اسلام آباد میں قائم ہو اس کی بنیادی وجہ یہی 12 نشستیں ہیں جو ہر دفعہ فارورڈ بلاک بنا کر حکومت آزاد کشمیر بنانے اور گرانے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ایک خطرناک صورتحال جو تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے وہ ٹیکسوں کی مخالفت ہے۔ کوئی بھی ریاست بغیر وسائل کے نہیں چل سکتی تاہم عوام کا یہ مطالبہ حق بجانب ہے کہ ان کے ٹیکسوں کے وسائل اشرافیہ اپنی عیاشیوں پر خرچ نہ کرے بلکہ ان وسائل کو منصفانہ بنیادوں پر عوام کی بنیادی ضروریات زندگی کی بہتری کے لیے استعمال کیا جائے۔آزاد کشمیر کے اندر پانی سے بجلی کے حوالے سےمطالبہ سامنے آیا کہ ان کے لیے مہنگی بجلی کوپیداواری لاگت کے برابر وصول کیا جائےاس مطالبہ کی منظوری کے مضمرات پاکستان کے مختلف علاقوں سے بھی سامنے آسکتے ہیں ،جن علاقوں سے بجلی کی پیداوار حاصل کی جارہی ہے۔بجلی کی پیداوار میں انرجی مکس سب سےپیچیدہ مسئلہ ہے کیوں کہ اس میں فرنس آئل اور گیس استعمال ہوتی ہے جس کی بدولت بجلی کی لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ سسٹم کے اندر کی چوری بھی لاگت میں اضافے کا سبب بنتی ہے علاوہ ازیںحکمرانوں اور پالیسی سازوں کے غلط معاہدےبھی بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا سبب ہیں جن کی وجہ سے کپیسٹی ری پیمنٹ کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ایک انتہائی اہم نکتہ کی طرف توجہ مبذول کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ آزاد کشمیر ایک سرحدی علاقہ ہے جس کے اندر انٹیلی جنس ایجنسیاںموجود ہیں ۔ اس کے باوجود احتجاجی تحریک زور پکڑتی رہی اور وہ نہ تو بر وقت حکمرانوں کو آگاہ کر سکیں اور نہ ہی اس کا تدارک۔اس پورے میکنزم پر غور و خوض اور اسے بدلنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ گورننس کے ڈھانچے میں تبدیلی لانے کی بھی ضرورت ہے ۔ یہ بات واضح ہے کہ آزاد کشمیر کے بہت سے باسی بیرون ملک رہائش پذیر ہیں وہ وہاں کی بہتر حکمرانی کی مثالیں اپنے رشتہ داروں، عزیزوں اور دوستوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ دوسری جانب سوشل میڈیا کی انفارمیشن بھی لوگوں کے سا منے ہے اب حکمرانی کی پرانی روش کو تبدیل کیے بغیربات نہیں بن سکتی ۔آزاد کشمیر کی مثال راولپنڈی ڈویژن کے ساتھ دی جا سکتی ہے جہاں پر حکمرانوں کی کھلے عام عیاشیاں عوام الناس کے سامنے صبح روشن کی طرح عیاں ہیں ایسے طرز حکمرانی کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔