• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک اہم وفاقی وزیر سے گپ شپ کے دوران میں نے سوال کیا کہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان جاری سیاسی لڑائی کب ختم ہونے والی ہے؟ وزیر موصوف نے مسکراتے ہوئے نہایت پُر اعتماد انداز میں جواب دیا:’’جب چاہیں گے ختم ہو جائے گی۔‘‘پھر مزاحاً بولے: ’’آپ لوگوں (یعنی میڈیا) کے پاس اڈیالہ کے قیدی کے سوا ٹاک شوزکیلئے کوئی موضوع ہے ہی نہیں، اس لیے سوچا کوئی دوسرا ایشو آپ کی ڈسکشن کیلئے فراہم کر دیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ جب بھی فیصلہ کریں گے، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان یہ ’’لڑائی‘‘ لمحوں میں ختم ہو جائے گی۔ اپوزیشن سمیت کئی سیاسی تجزیہ کاروں کا بھی یہی ماننا ہے کہ یہ سب کچھ محض ایک’’ٹوپی ڈرامہ‘‘ہے، تاکہ عوام اور میڈیا کو عمران خان کے علاوہ بھی کسی دوسرے ایشو پر مصروف رکھا جا سکے۔ لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ لڑائی حقیقت میں نظام کیلئے کسی خطرے کی علامت ہے تو وہ سخت غلط فہمی کا شکار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ لڑائی محض دکھاوا نہ بھی ہو تو بھی اس سے موجودہ سیاسی نظام کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ صرف اور صرف عمران خان ہیں۔

آج پاکستان کے سیاسی ڈھانچے کے تین بڑے اسٹیک ہولڈرز ہیں: مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ۔ ان تینوں قوتوں کے باہم جڑے رہنے کی واحد ضمانت عمران خان ہیں۔ عمران خان نہ ان تینوں سے لڑائی ختم کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی یہ تینوں ان پر اعتماد کرنے پر تیار ہیں۔ سب کو بخوبی علم ہے کہ اگر ان تینوں میں سے کوئی ایک بھی فریق پیچھے ہٹا یا الگ ہوا تو عمران خان طاقتور ہو جائیں گے اور موجودہ نظام دھڑام سے زمین بوس ہو جائے گا۔ اسٹیبلشمنٹ کیلئے عمران خان کسی صورت قابل قبول نہیں۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جسکے باعث موجودہ سیاسی نظام وجود میں آیا، جس میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں کو اقتدار میں حصہ دیا گیا۔ اس بندوبست میں کسی ایک جماعت کا حکومتی بینچوں سے علیحدہ ہونا صرف نظام کے خاتمے ہی کا نہیں بلکہ اس جماعت کے اپنے اقتدار کے خاتمے کا بھی باعث بنے گا، اور ظاہر ہے یہ دونوں جماعتیں ایسا کبھی نہیں چاہیں گی۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی، دونوں، اپنے اقتدار کیلئے عمران خان کی مشکور ہیں۔ اگرچہ وہ لوگ اس کا عوامی سطح پر اظہار نہیں کرتے لیکن آف دی ریکارڈ بات چیت میں مانتے ہیں۔ وہ خوش ہیں کہ عمران خان مسلسل اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنی لڑائی کو ختم کرنے کے بجائے اسے مزید ہوا دیتے جا رہے ہیں۔ یہی لڑائی ہے جسکی وجہ سے وہ آج جیل میں ہیں، ان کی جماعت مسلسل مشکلات کا شکار ہے اور وہ خود سیاسی میدان سے باہر رکھے گئے ہیں۔ لیکن اسی لڑائی کی بدولت ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا اقتدار مضبوط اور مستحکم ہے۔ عمران خان کا وجود ہی ان دونوں جماعتوں کیلئےاقتدار کی سب سے بڑی ضمانت بن چکا ہے۔ تحریک انصاف کے اندر بھی اس حقیقت کا بخوبی ادراک موجود ہے۔ پارٹی رہنما جانتے ہیں کہ ان کی قیادت کا ہر محاذ آرائی پر مبنی قدم دراصل ان کے اپنے نقصان کا سبب بن رہا ہے۔ لیکن عمران خان کی شخصیت ایسی ہے کہ وہ نہ کسی کی سنتے ہیں اور نہ ہی اپنی زبان بند رکھتے ہیں۔ وہ مسلسل جارحانہ بیانیے کو آگے بڑھاتے ہیں، جس سے نقصان صرف ان کی جماعت اور خود ان کو ہی ہو رہا ہے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان موجودہ کشمکش کسی بڑی سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی تو وہ خوش فہمی میں مبتلا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس لڑائی سے نہ تو نظام کو کوئی نقصان پہنچے گا اور نہ ہی کسی نئی سیاست کا دروازہ کھلے گا۔ آنے والے دنوں میں یہی ہو گا کہ دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت ایک میز پر بیٹھے گی، تمام گلے شکوے دور کر کے معاملات طے کرے گی اور سیاسی تعاون کی نئی راہیں تلاش کرے گی۔ ان حالات میں، اگرچہ منطقی طور پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو عمران خان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ وہ ان کے اقتدار کو طویل اور محفوظ بنا رہے ہیں، لیکن ظاہر ہے وہ ایسا نہیں کریں گے۔ وہ اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں گے، نظام اسی طرح قائم و دائم رہے گا اور عمران خان اپنی ضد اور بیانیے کے بوجھ تلے جیل میں ہی ڈٹے رہیں گے۔ پاکستان کی سیاست کا المیہ بھی شاید یہی ہے کہ ایک شخص جسے نظام کے لیے خطرہ سمجھا گیا، اسی کی موجودگی نے اس نظام کو مضبوط ترین کر دیا ہے۔

تازہ ترین