سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کا کہنا ہے کہ میں نے جماعت اسلامی سے استعفیٰ دے دیا ہے، جس رات میں نے استعفیٰ دیا اس رات میں رویا تھا۔
جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے مشتاق احمد خان نے کہا کہ میں نے 19 ستمبر کو صمود فلوٹیلا پر سفر کے دوران جماعت اسلامی سے استعفیٰ دیا، مگر میرا جماعت اسلامی کے ساتھ احترام کا رشتہ آج بھی قائم ہے۔
مشتاق احمد خان نے کہا کہ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور فلسطین کاز کیلئے کام کرتا رہوں گا، اب میں انسانی حقوق کیلئے کام کروں گا، میں کسی سیاسی پارٹی میں شامل نہیں ہوں گا۔
انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی سے میرا احترام اور عزت کا رشتہ ہے، وہ میرے ساتھ ہمیشہ رہے گا، میں ممنون احسان تا حیات اور قبر تک رہوں گا۔
مشتاق احمد نے کہا کہ کچھ چیزیں ایسی تھیں، تنظیم کا اپنا اسٹرکچر اور باونڈریز ہوتی ہیں، حافظ نعیم آج بھی میرے لیے محترم ہیں، ضروری نہیں کوئی پارٹی چھوڑے تو جھگڑے کے ساتھ چھوڑے، پاکستان میں ایک لاکھ پاک فلسطین کمیٹی بناؤں گا، میں فلسطین، فری میڈیا، جمہوریت کے لیے جدوجہد کروں گا، جماعت اسلامی سے استعفیٰ دے دیا ہے لیکن اس پر ابھی جواب نہیں ملا۔
سابق سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ یہاں سے فلسطین ایکشن کولیشن کا وفد لے کر گیا تھا مجھ سمیت پانچ افراد تھے، میں خود پاکستان فلسطین فورم کی نمائندگی کر رہا تھا، تیونس سے مقبوضہ فلسطین کی بندرگاہ تک20 دن کا سمندری سفر کیا، سفر اور پھر جیل میں تین دن بھوک ہڑتال کی وجہ سے وزن کم ہوا، جب روانہ ہوئے تھے تو یقین نہیں تھا کہ فلسطین تک پہنچ جائیں گے، ملائیشیا کے وزیراعظم کا شکریہ کے ملائیشیا کا جھنڈا بھی ہمیں دیا، ملایشیا کے وزیراعظم نے فلوٹیلا کو مالی مدد بھی فراہم کی، ملائیشیا سے پھر تیونس گیا واپس پاکستان نہیں آیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مجھ پر 26 مقدمات تھے بعض میں، میں نے ضمانت لی، کچھ مقدمات میں محسن نقوی اور شہباز شریف نے معاہدہ کیا کہ واپس لیں گے، مقدمات واپس نہیں لیے گئے ڈر تھا کہ یہ مجھے ایئرپورٹ پر روکیں گے۔
مشتاق احمد خان نے کہا کہ تیونس سے روانہ ہوئے تو ہم پر راستہ میں پہلا ڈرون حملہ ہوا، اسرائیلی قابض فوج کو قریب سے دیکھا یہ کاغذی شیر ہیں، اسرائیلی فوج کو ہماری پچاس کشتیوں کو پکڑنے میں 12 گھنٹے لگے، اسرائیلی بحریہ جہاز پیچھے لگا جس کی لہروں سے ہماری کشتی اچھل رہی تھی، اسرائیلی فوج میں کوئی پروفیشنل ازم نہیں یہ صرف بچوں کو قتل کرسکتے ہیں، اسرائیلی فوج نے سب سے پہلے فلسطین کے جھنڈے کو پھاڑا، کشتی سے اتارنے کے بعد ہمیں اسرائیلی اہلکار بندرگاہ لے گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجھ سے پوچھا کہاں سے آئے ہو بتایا کہ پاکستان سے تو اسرائیلی فوجی نے گالی دی، اسرائیلی فوج کی کوشش تھی کہ ہم مشتعل ہوں تاکہ وہ فائرنگ کر سکیں، دوران قید یہ کتوں کے ساتھ ہمارے سیل آئے اور لاتیں مارتے رہے، سیل کے بعد ایک پنجرے میں ہم سب کو بند کیا گیا، میرے ساتھ سیل میں قیدیوں کا تعلق امریکا، نیدرلینڈ، یونان اور اٹلی سے بھی تھا، میرے ساتھ سیل میں زیادہ تر غیر مسلم اور غیر ملکی تھے، ہمارے قافلے میں ہر مذہب اور قوم کا شخص موجود تھا، صمود فلوٹیلا میں یہودی بھی شامل تھے، فلوٹیلا کا مقصد غزہ میں نسل کشی روکنا، غذائی راہداری بنانا تھا۔
سابق سینیٹر نے کہا کہ ہماری رہائی کا اصل کریڈٹ یورپ کے عوام کو جاتا ہے، یورپ کے عوام کے احتجاج سے اسرائیل ہماری رہائی پر مجبور ہوا۔
مشتاق احمد نے کہا کہ مذاکرات اس بات کے ثبوت ہے کہ یہ حماس کی کامیابی ہے، امریکا غزہ میں جنگی جرائم میں شراکت دار ہے، جو معاہدہ ہوا ہے اس کا کریڈٹ غزہ اور یورپ کے عوام کو جاتا ہے، بیس نکاتی معاہدہ جس کی اکثر ممالک نے حمایت کہ وہ تو حماس نے منہ پر دے مارا، اب جو معاہدہ ہے کہ حماس کی شرائط پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ سویڈن کی گریٹا فلوٹیلا کو لیڈ کرسکتی ہیں تو مسلم ممالک کہاں ہیں، ہم دو ارب مسلمان ہیں ہم اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے، فلوٹیلا میں شامل گریٹا اور دیگر خواتین نے دنیا کو ہلاکر رکھ دیا، نیلسن منڈیلا کے پوتے کے ساتھ سیل میں رہا یہ بھی میرے لیے اعزاز ہے ، گریٹا اور فلوٹیلا میں شامل تمام خواتین کو پاکستان آنے کی دعوت دونگا۔
سابق سینیٹر نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی نہ ہوئی، نسل کشی نہ روکی گئی تو دوبارہ جائیں گے، مطالبہ کروں گا کہ ہمیں کراچی کی بندرگاہ سے جانے کی اجازت دی جائے۔