بہت پیارے ڈاکو صاحب ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ !
آپ کو میرے طرز تخاطب سے اندازہ ہو گیا ہو گا کہ میں آپ سے کس درجہ محبت کرتا ہوں ۔ دراصل مجھے ہمیشہ سے ڈاکو بننے کا شوق رہا ہے مگر بوجہ بزدلی اور کم ہمتی اپنی اس خواہش کو عملی جامہ نہ پہنا سکا۔ یہ خواہش ان دنوں اسلئے تیز ہوئی ہے کہ پہلے آپ لوگ صرف سندھ کے جنگلوں میں نظر آتے تھے مگر اب چاروں صوبوں کے شہروں میں بھی نظر آتے ہیں ، اسی طرح کسی زمانے میں آپ چہرے پر ڈھاٹا باندھ کر رات کو اپنے ٹھکانوں سے نکلتے تھے جسکی وجہ سے ہر کسی کو آپ کے روئے انور کا دیدار نصیب نہیں ہوتا تھا اور یوں ہر شخص کو آپ کی بہادری، دلیری اور دیدہ دلیری کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا مگر جب سے آپ عوامی ہوئے ہیں یعنی بھرے بازار میں، ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں یعنی دن کے اوقات میں اسلحہ لہراتے ہوئے کسی گھر یا کسی دکان میں داخل ہوتے ہیں اور کامیاب واردات کے بعد پورے سکون سے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر واپس چلے جاتے ہیں ، اس دن سےلوگ آپ کے دیوانے ہو گئے ہیں اور آپ کی اس دلیری پر عش عش کرنے لگے ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو نظر بد سے بچائے اور ان حکام کے درجات بلند کرے جو آپ کی مساعی جمیلہ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے۔وہ جو کسی نے کہا ہے کہ ’’سلام روستائی بے غرض نیست‘‘اور مجھے اُمید ہے آپ جیسے پڑھے لکھے ڈا کو کو اس فارسی مصرعہ کا مطلب بتانے کی ضرورت نہیں ، میں بھی یہ خط کسی غرض ہی سے لکھ رہا ہوں ، جیسا کہ میں نے آپ کو شروع میں بتایا کہ مجھے بچپن ہی سے ڈاکو بننے کا شوق ہے مگر بزدلی اور کم ہمتی کے علاوہ خرابی صحت نے بھی راستہ روکے رکھا بلکہ ایک کامیاب ڈاکو بننے کیلئے جو وسائل درکار تھے، وہ بھی میرے پاس نہیں تھے، میں نے ابتدائے شباب میں ایک دانا شخص سے اس باب میں مشورہ کیا تو اس نے مجھ سے پوچھا ” تم نے ڈاکو بن کر لوگوں کی جیبوں پر ڈا کہ ہی ڈالنا ہے نا ؟“ میں نے اثبات میں جواب دیا تو وہ بولا ” پھر ڈا کو کہلوانے کی کیا ضرورت ہے، سیمنٹ ، کاغذ ، چینی یا اس قسم کا کوئی دوسرا کاروبار شروع کرو، اللہ برکت دے گا مگر میرے پاس اس کےوسائل نہ تھے چنانچہ میں اپنی خواہش دل میں دبا کر بیٹھ گیا۔کچھ عرصے بعد میں دوبارہ اسی بزرگ کے پاس گیا اور اس سے ڈاکو بننے کے ضمن میں کوئی نیا مشورہ چاہا اس مردِ دانا نے جواب دیا ” کسی مقبول سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن لڑو، بعد میں کروڑوں روپے لے کر حکومتی جماعت میں شامل ہو جاؤ مگر یہاں بھی وسائل کی کمی ہی آڑے آئی۔ اس کے بعد میں نے سوچا کہ میں اب اس بزرگ کے پاس نہیں جاؤں گا۔ کیونکہ یہ مجھ سے لمبا پینڈا طے کرانا چاہتا ہے مگر اتفاق سے ایک روز یہ مردِ دانا مجھے سر راہے مل گیا۔ میں کنی کترا کر نکل جانا چاہتا تھا مگر اس نے مجھے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور بولا بھاگتے کہاں ہو، کیا ڈا کو بننے کا ارادہ ملتوی کر دیا ہے؟“میں نے جواب دیا نہیں لیکن جو نسخے آپ مجھے بتاتے ہیں، ایک تو میرے پاس اس کیلئے وسائل نہیں ہیں اور دوسرے ان کے ذریعے دولت مند ہونے میں وقت بھی زیادہ لگتا ہے ۔“یہ سن کر وہ ہنسا اور بولا ” یہ وقت زیادہ لگنے والی بات تو خیر غلط ہے، شہر میں تمہیں جتنے بڑے بڑے پلازے نظر آتے ہیں ان کی عمریں کچھ زیادہ نہیں ہیں ، باقی رہی وسائل کی بات تو تھوڑی بہت انویسٹمنٹ تو بہر حال کرنا ہی پڑتی ہے لیکن تم فکر نہ کرو، میرے پاس تمہارے لئے دو تین چوائسز موجود ہیں“ میں نے تفصیل پوچھی تو اس نے کہا ”پہلی چوائس تو یہ ہے کہ تم پیری فقیری شروع کر دو، یہ تمہارے لئے آسان ترین راستہ ہے۔ کیونکہ تمہارے بزرگوں کی گدی موجود ہے جو تم نے خود چھوڑی ہوئی ہے۔“میں نے کہا ’’اس لیے چھوڑی ہے کہ میں ان نیک روحوں کے نقش قدم پر گامزن نہیں ہوں ، میں بہت گنہگار انسان ہوں“اس پر وہ مردِ دانا بولا یہ گناہگار ہونے کی کوالیفکیشن ہی تو تمہارے کام آئے گی، میں تمہیں سچ مچ کا پیر نہیں ، ڈبہ پیر بننے کیلئے کہہ رہا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ تم ڈاکو کہلانے کی بجائے پیر صاحب کہلاؤ اور ہر نئی حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنےکیلئے اسلام آباد کی مشائخ کانفرنس میں شرکت کرو۔ نذر نیاز علیحدہ ملے گی اور ہاتھ اس کےعلاوہ چومے جائیں گے، نیز سرکار کا قرب بھی حاصل ہو گا ۔“مگر مجھے یہ تجویز پسند نہیں آئی کیونکہ میں گناہگار ہوں مگر اتنا بھی نہیں کہ مذہب کو ڈاکہ زنی کیلئے استعمال کروں ، اس پر اس نے ایک اور پروپوزل پیش کی اور وہ یہ کہ میں کوئی این جی او بناؤں جو مغرب کے ایجنڈے کیلئے راہ ہموار کرے مگر اس کیلئے جن Contacts کی ضرورت ہے، وہ میرے پاس نہیں تھے۔ چنانچہ میں نے یہ تجویز بھی رد کر دی۔ اس کے بعد سے اس بزرگ نے مجھ سے قطع تعلق کر لیا ہے اور اب وہ میرے فون کا جواب بھی نہیں دیتا۔سو یہ جو خط میں آپ کے نام لکھ رہا ہوں ، یہ آخری امید سمجھ کر لکھ رہا ہوں، براہ کرم مجھے گائیڈ کریں کہ میں اپنی بزدلی پر کیسے قابو پا سکتا ہوں تا کہ آپ کے نقش قدم پر چل کر میں راتوں رات امیر بھی ہو جاؤں اور ملک وقوم کی خدمت بھی کر سکوں ۔ آپ چونکہ پڑھے لکھے انسان ہیں لہٰذا مجھے اُمید ہے کہ آپ میرے اس بیان پر حیران نہیں ہونگے کیونکہ معاشرے میں انقلاب کا رستہ تبھی ہموار ہو سکتا ہے۔ اگر افراتفری، انارکی، لاقانونیت، مہنگائی ، نا انصافی اور ظلم اپنی انتہا کو پہنچ جائے اس کام کی رفتار آپ کے علاوہ ہمارے کم و بیش سبھی سرکاری ادارے دن بدن تیز سے تیز کرتے چلے جا رہے ہیں ۔ اس نیک کام میں میں بھی اپنا حصہ ڈالنا چاہتا ہوں ، اُمید ہے آپ اولین فرصت میں میری رہنمائی فرمائیں گے تاہم اس کیلئے آپ کو میرے غریب خانے کا رُخ کرنے کی ضرورت نہیں کہ میرا غریب خانہ آپ کے قدم رنجہ فرمانے کے قابل نہیں ، آپ بذریعہ خط اپنے زریں مشوروں سے آگاہ فرمائیں۔ میں یہ خط اخبار کے دفتر سے وصول کرلوں گا۔اگر کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو معاف فرمائیں ۔ اس کے علاوہ ایک گزارش یہ ہے کہ اگر آپ بھی فلم ”سر فروش ‘‘کے اس مشہور اور مقبول ڈائیلاگ ” چوری میرا پیشہ اور نماز میرا فرض ہے‘‘پر ہمارے معاشرے کے بیشتر افراد کی طرح عمل پیرا رہتے ہیں تو مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔ والسلام آپ کا مخلص
مثل ماہتاب سر شام نکل آتا ہے
ان سے ہر روز کوئی کام نکل آتا ہے
ایک منظر کیلئے کھیل ہمیں دیکھنا ہے
جس میں پردے سے وہ گلفام نکل آتا ہے
اپنے رومال میں گرہوں کے علاوہ کیا ہے
ہر گرہ سے کوئی پیغام نکل آتا ہے
دشمن خواب ہے سونے سے ذرا سا پہلے
میرا ماہتاب سر بام نکل آتا ہے
پہلے تو رقص کناں رہتا ہے سب سے چھپ کر
پھر تو دیوانہ سر عام نکل آتا ہے