بلا شبہ انگریزی ایک بہت امیر و کبیر زبان ہے مگر اتنا وسیع دامن رکھنے کے باوجود اس میں کچھ لفظوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ مثلاً انگریزی میں غیرت کیلئے کوئی لفظ نہیں ہے۔ میں نے ایک انگریز سے غیرت کی انگریزی پوچھی ، اس نے ”آنر‘‘ بتائی مگر میرے نزدیک یہ لفظ ” غیرت‘‘ کا صحیح مفہوم اپنے اندر نہیں رکھتا۔ چنانچہ میں نے اسے مزید کریدنے کی غرض سے پوچھا ”اگر تم اپنی بیوی کو کسی غیر مرد کے ساتھ دیکھو توتمہیں کیا آئے گا ؟“بولا’’غصہ آئے گا ؟‘‘میں نے جھنجھلا کر کہا ’’غیرت نہیں آئے گی ؟‘‘اس نے بھی میری ہی طرح جھنجلا کر کہا ” وہ کیا ہوتی ہے؟“مگر ہمارے ہاں غیرت کی پیدا وار اتنی زیادہ ہے کہ ہم یہ جنس برآمد کر سکتے ہیں اور بیرونی دنیا میں اگر اس کا کوئی خریدار ہو تو ڈھیروں زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔ ہمیں بات بات پر غیرت آتی ہے چنانچہ ہم دن میں کتنے ہی قتل غیرت کے نام پر کر ڈالتے ہیں ۔ ہماری غیرت تو اس وقت بھی جاگ جاتی ہے جب کوئی کار زن سے ہمارے آگے نکل جائے ۔ چنانچہ ہم اس وقت تک اس کا پیچھا کرتے ہیں جب تک دونوں گاڑیاں کسی تیسری گاڑی سے ٹکرا نہیں جاتیں اُوپر سے یار لوگ بھی ہمیں ذرا ذرا سی بات پر غیرت دلاتے رہتے ہیں تمہارے’’شریکوں‘‘نے اپنے والد کے چہلم پر دو ہزار لوگوں کی دعوت کی تھی۔ اگر تم میں غیرت ہے تو تمہارے والد کے چہلم پرکم از کم تین ہزار افراد کیلئے کھانا پکنا چاہیے۔ ایک چوہدری اس چکر میں چہلم کے’’باراتیوں‘‘کو بتا رہا تھا’’ والد صاحب کے چہلم پر چھ من گھی خرچ ہوا ہے۔‘‘ جس پر قریب بیٹھے میراثی نے معصومیت سے پوچھا ’’ چوہدری صاحب ! آپ نے بزرگوں کو تل کر دفن کیا ہے؟‘‘ بہر حال غیرت ہمارے کلچر کا بنیادی جزو ہے اور ہمیں اس پر فخر ہے۔میں اپنے اس فخر کا اظہار اپنے اس انگریز دوست سے کر رہا تھا جس سے میں نے غیرت کی انگریزی پوچھی تھی۔ جب میں نے اپنے ہاں پائی جانے والی غیرت کی بیسیوں مثالیں مع سنسنی خیز واقعات سنائیں تو اسے ”غیرت‘‘ کا مفہوم صحیح طور پر سمجھ آ گیا۔ تب اس نے مجھ سے پوچھا ” تمہارے ہاں ہر تیسرے چوتھے سال ٹی وی سے قومی ترانہ بجتا ہے۔ تم اس وقت کیا کرتے ہو؟“میں نے جواب دیا ”ہم اپنے قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہو جاتے ہیں‘‘اس نے کہا ” قومی ترانے کے فوراً بعد ایک شخص ٹی وی اسکرین پر نمودار ہوتا ہے اور کہتا ہے میرے عزیز ہم وطنو ؟ تم اس وقت کیا کرتے ہومیں نے جواب دیا بیٹھ جاتے ہیں‘‘۔ ان لمحوں میں تمہیں غیرت نہیں آتی ؟“میں نے پوچھا ’’وہ کیا ہوتی ہے؟“انگریز نے ایک سوال اور کیا ” تمہاری حکومت پاکستانیوں کو پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرتی ہے۔ تم اس پر کیا محسوس کرتے ہو؟‘‘میں نے کہا ’’ہم خوش ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں اس کام کے پیسے ملتے ہیں !“بولا ” تمہیں غیرت نہیں آتی ؟“میں نے حیران ہو کر پوچھا ” وہ کیا ہوتی ہے؟“ پر اس روز انگریز اللہ جانے یہ بے تکے سوالات کیوں پوچھ رہا تھا۔ اس نے اس قسم کا ایک اور بے تکا سوال پوچھا ’’ کسی غیر ملکی ملزم کو تمہاری تمام عدالتیں غلط یا صحیح طور پر سزا سنا چکی ہوں اور اس کی رحم کی اپیل بھی مسترد ہو چکی ہو مگر ایک دن باہر سے حکم ملے اور اسے فوری طور پر پھانسی کی کوٹھڑی سے نکال کر خصوصی طیارے میں بیرون ملک بھیج دیا جائے تو تمہیں غیرت آئے گی ؟‘‘ اس پرمیں نے کہا ” اس میں غیرت کی کیا بات ہے۔ ہم مشرقی لوگ بڑوں کا حکم مانتے ہیں‘‘۔مگر وہ میرے جوابات پر اپنا رد عمل ظاہر کیے بغیر مجھ سے پوچھے جا رہا تھا ” جب امریکہ تمہارے لوگوں کو مجاہد کہتا ہے تم انہیں مجاہد کہنا شروع ہو جاتے ہو۔ جب وہ انہیں دہشت گرد کہتا ہے تم بھی انہیں دہشت گرد کہنے لگتے ہو۔ تم سب سے پہلے اپنے ملک کی نئی حکومت کو تسلیم کرتے ہو اور اس کے بعد حکم ملنے پر سب سے پہلے اسے تباہ و بر باد کرنے کیلئے امریکہ کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتے ہو۔ تمہیں اس پر غیرت نہیں آتی ؟ تمہارے وزیروں اور جرنیلوں کی مغربی ایئر پورٹوں پر تلاشی لی جاتی ہے۔ تمہیں غیرت نہیں آتی ؟ تم کسی دوسرے کے کہنے پر تعلیمی نصاب بدل دیتے ہو، تمہیں غیرت نہیں آتی ؟ تم حکم ملنے پر روشن خیالی کا پر چار شروع کر دیتے ہو تمہیں غیرت نہیں آتی ؟ تم ہر دوسرے تیسرے روز کشمیر پر ایک سے بڑھ کر ایک لچکدار تجاویز دیتے ہو اور انڈیا اسے رد کرتا چلا جاتا ہے تمہیں غیرت نہیں آتی ؟ تم لوگوں کی تھانوں میں ، عدالتوں میں، دفتروں میں چوراہوں میں اور چوپالوں میں روزانہ بے عزتی ہوتی ہے، تمہیں اپنی اس ذلت پر غیرت نہیں آتی ؟ تمہاری آنکھوں کے سامنے قانون اور آئین کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں تمہیں غیرت نہیں آتی ؟ تمہارے منتخب وزرائے اعظم کے ساتھ نائب قاصدوں جیسا سلوک ہوتا ہےتمہیں غیرت نہیںآتی؟ تمہیں اپنے مولویوں کی برسر عام وعدہ خلافیوں پر غیرت نہیں آتی ؟ تمہیں اپنےدانشوروں کی موقع پرستی اور بے حسی پر غیرت نہیں آتی ؟ غربت ، مہنگائی اور لاقانونیت نے تمہاری زندگی اجیرن بنادی ہے تمہیں اس پر غیرت نہیں آتی ؟‘‘اس نے جب اس طرح کے سوالات کی بوچھاڑ جاری رکھی اور میں نے محسوس کیا کہ وہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تو میری غیرت جاگ اٹھی ۔ میں نے اسے مخاطب کیا اور غصے سے کہا ’’ خبردار ! اب اگر ایک لفظ بھی زبان سے نکالا، اللہ جانے تم غیرت کسے سمجھتے ہو، تم جن باتوں پر ہمیں مطعون کرنے کی کوشش کر رہے ہو وہ حقیقت پسندی ہے۔ ہم سب سے پہلے پاکستان کے قائل ہیں ۔ ملکی سلامتی، قومی خود مختاری وغیرہ یہ سب بعد کی باتیں ہیں اور بے عزتی وغیرہ کے الفاظ تمہارے لیے اہمیت رکھتے ہوں گے ہمارے لیے نہیں کیونکہ ہمارے لیے سب سے اہم پاکستان ہے! اور آخر میں میری ایک بات یاد رکھو، غیرت صرف اسی چیز کا نام ہے جو ایک بھائی کو ، ایک شوہر کو اور ایک باپ کو اپنی بہن ، اپنی بیوی اور اپنی بیٹی پر شک کی صورت میں محسوس ہوتی ہے۔ تم بغیر نکاح کے بچے پیدا کرنے والی قوم کے حرامی فرد ہو، تمہیں کیا پتہ غیرت کیا ہوتی ہے۔ لہٰذا خبر دار اگر اب اس موضوع پر تم نے ایک لفظ بھی منہ سے نکالا۔