میرے ایک جاگیر دار دوست ہیں جو بہت بڑےگدی نشین بھی ہیں اور اپنے بارے میں ان کی بہت سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ وہ بہت محنتی ہیں۔ ان کی روز مرہ کی مصروفیات یہ ہوتی ہیں ، دوپہر کو ایک بجے سو کر اٹھتے ہیں، بستر پر لیٹے لیٹے چار کپ چائے پیتے ہیں، اس کے بعد اخبارات کا پلندہ اور ایک پیکٹ سگریٹ ہاتھ میں تھامے غسل خانے میں داخل ہوتے ہیں، تقریبا ڈھائی بجے غسل خانے سے برآمد ہوتے ہیں، اب بظاہر یہ لنچ کا ٹائم ہوتا ہے لیکن وہ ناشتہ فرماتے ہیں۔ ناشتے کے بعد گاڑی میں بیٹھتے ہیں اور اپنے دفتر چلے جاتے ہیں جہاں ان کا عملہ واپس گھروں کو جانے کی تیاری میں مشغول ہوتا ہے۔ منیجر کو اپنے کمرے میں بلاتے ہیں اور اس سے دن بھر کی کارگزاری کی بریفنگ لیتے ہیں، اس کے بعد منیجر چھٹی کر جاتا ہے اور صاحب ٹیلی فون کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں، اس کے بعد رات گئے تک دفتر میں دوستوں کے ساتھ ناؤ نوش کی محفل سجتی ہے جہاں’’ بقائمی ہوش وحواس ‘‘لمبے لمبے سیاسی تجزیے ہوتے ہیں۔ اپنی جا گیر اور بہت سے دیگر پھیلے ہوئے کاروبار کے حوالے سے مستقبل کی پلاننگ ہوتی ہے۔ رات کو تقریباً بارہ بجے ’لنچ‘بھی کیا جاتا ہے اور موصوف صبح چار بجے گھر پہنچ کر ڈنر بھی کرتے ہیں۔ اگلے روز وہ دوپہر کو ایک بجے انگڑائی لے کر بیدار ہوتے ہیں تو ان کے جسم کا ایک ایک حصہ دکھ رہا ہوتا ہے جس کی وجہ وہ اپنی غیر معمولی محنت بتاتے ہیں۔ اس محنت کے حوالے سے ایک روز میری ان سے خاصی طویل گفتگو ہوئی جس کی تلخیص درج ذیل ہے۔
’’تمہارے نزدیک محنت کی تعریف کیا ہے ؟‘‘
’’میرے خیال میں محنت ہر اس عمل کو کہتے ہیں
جس کا پھل انسان کو ملے۔‘‘’’اور یہ جو بیچارے مزدور سارا دن کڑکتی دوپہر میں تمہارے لئے کام کرتے ہیں انہیں اس محنت کا جو پھل ملتا ہے وہ پھل زیادہ سے زیادہ گنڈیریاں یا شہتوت ہی ہوتے ہوں گے!‘‘
’’اسی لئے تو میں کہتا ہوں کہ یہ ہڈ حرام لوگ ہیں ۔یہ محنت کرنا ہی نہیں چاہتے انہیں اس کا پھل کیسے ملے گا۔؟‘‘ تم محنت کسے کہتے ہو ؟
محنت وہ ہے جو میں کرتا ہوں ۔ وہ کیسے؟
’’میں روزانہ نو دس گھنٹے سوتا ہوں تمہارے خیال میں یہ کوئی آسان کام ہے؟ پسلیاں درد کرنے لگتی ہیں ‘‘
’’ یہ تو تم ٹھیک کہتے ہو۔‘‘
اس کے علاوہ رات گئے تک دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر ملکی مسائل پر غور کرتا ہوں اور ان کا ہم حل تلاش کرتے ہیں اس سے زیادہ محنت کا کوئی کام ہے ۔’ نہیں، واقعی نہیں ہے۔ اتنی محنت کے بعد تو تم کوئی مزید محنت کرنے کے قابل رہتے ہی نہیں ہو گے‘۔
’’ہونا تو یہی چاہیے مگر میں چونکہ فارغ نہیں رہ سکتا اس لیے گرمیوں میں یورپ چلا جاتا ہوں اور وہاں سے امریکہ وغیرہ جانا پڑتا ہے ۔تمہیں تو پتہ ہے آٹھ آٹھ دس دس گھنٹے کی مسلسل فلائٹس اور اوپر سے جیٹ لیگنگ یہ سب کچھ تبھی برداشت ہو سکتا ہے اگر انسان شروع سے محنت کا عادی ہو۔‘‘’’تمہاری اس بات میں واقعی کوئی شبہ نہیں میںتم جیسے بڑے زمینداروں، صنعت کاروں اور بزنس مینوں کی یہ زندگی دیکھتا ہوں تو مجھے تم لوگوں پر رحم آتا ہے تم تو حیوانوں سے بدتر زندگی بسر کر رہے ہو۔ اتنی محنت تو وہ بھی نہیں کرتے۔‘‘
’’اگر تم اس وقت میری تعریف نہ کر رہے ہوتے تو میں تم سے تمہارے آخری جملے پر شدید احتجاج کرتا ویسے یہ تعریف تو تمہارا حسن ظن ہے ورنہ میں اس قابل کہاں ہوں اور ہاں اپنے دانشور دوستوں کو بتادو کہ ہم غریب ’کا شتکاروں کے خلاف‘ زہریلا پروپیگنڈا نہ کیا کریں، ہم سے زیادہ محنتی بھلا کون ہے؟ لیکن ہمارے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ محنت دوسرے کرتے ہیں اور اس کا پھل ہم کھاتے ہیں۔ ان سے پوچھو کہ یہ بات اگر صحیح بھی ہے تو اصل چیز تو پھل کھانا ہے نا، اور وہ ہم کھا رہے ہیں اور بغیر محنت کے پھل کھانے کیلئے جتنی محنت کرنا پڑتی ہے اس کا اندازہ تم جیسے ہڈ حراموں کو ہو ہی نہیں سکتا‘‘۔
میں اس کی اس بات پر کچھ دیر کیلئے خاموش رہا۔ پھر میں نے کہا’’ تم اپنی صرف محنت ہی اتنی دیر سےگنوار ہے اور تم نے اپنی سب سے بڑی خدمت کا تو ذکر ہی نہیں کیا وہ یہ کہ تم صرف ایک بڑے جاگیر دار ہی نہیں بڑے گدی نشین بھی ہو اور تمہارے بزرگوں، جنہوں نے ہندوستان میں اسلام کی روشنی پھیلائی،ان بزرگوں کے سالانہ عرس پر لاکھوں، لوگ مختلف شہروں سے جمع ہوتے ہیں اور تمہاری درگاہ پر حاضری دیتے ہیں۔‘‘’’دراصل تم مجھے صحیح طرح جانتے نہیں جسکی وجہ سے تم نے یہ سوال کیا۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اپنی نیکیوں اور دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالواور اب تم نے بات چھیڑی دی ہے تو پھرسنو یہ غریب لوگ میرے پاس آتے ہیں ان میں سے کسی کا بچہ بیمار ہوتا ہے ۔کوئی بے روزگار ہوتا ہے کسی کو پولیس تنگ کر رہی ہوتی ہے۔غرضیکہ ہر طرح کے مسئلے کے حل کے لیے یہ میرے پاس چلے آتے ہیں۔‘‘
’’تو پھر تم کیا بیمار بچے کی دوا کے لیے پیسے دیتے ہو،بے روزگار کے روزگار کا انتظام کرتے ہو۔لوگوں کے رکے ہوئے جائز کام کرواتے ہو کیا کرتے ہو۔؟‘‘
’’نہیں میں ان میں سے کچھ بھی نہیں کرتا صرف ان کیلئے دعا کرتا ہوں اور اس دعا کی میں کوئی فیس نہیں لیتا۔یہ فی سبیل اللہ ہوتی ہے مگر غریب لوگ بہت غیرت مند ہوتے ہیں، یہ کسی کا احسان لینا گوارا نہیں کرتےچنانچہ جاتے ہوئے میرے قدموں میں نذرانے کی رقم چھوڑ جاتے ہیں‘‘۔
’’اور وہ تم لے لیتے ہو ‘‘
’’نہ لوں تو ان کی تسلی ہی نہیں ہوتی وہ سمجھتے ہیں کہ اس صورت میں دعا قبول نہیں ہوگی‘‘
اس گفتگو کے بعد مجھ میں مزید بات کرنے کاحوصلہ نہ رہا تاہم میرے اندر سے اس کے لیے ایک آواز سنائی دی۔’’در فٹے منہ بے غیرتا‘‘