• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان نے ایک بار پھر پاکستان کی سیاست میں بڑا جوا کھیل دیا جسکے اثرات نہ صرف تحریک انصاف بلکہ مجموعی طور پر ملک کے سیاسی نظام، وفاقی ڈھانچے اور سول ملٹری تعلقات پر بھی گہرے ہوں گے۔ اب یہ جوا کامیاب ہوتا ہے یا ناکام، دونوں صورتوں میں پاکستان کی سیاست ایک نئے موڑ پر آ کھڑی ہوگی۔ یا تو عمران خان کے خواب کے مطابق ایک ’’انقلاب‘‘ برپا ہوگا، یا پھر تحریک انصاف کو ایک شدید سیاسی دھچکا لگے گا، یہاں تک کہ وہ خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت بھی کھو سکتی ہے۔ علی امین گنڈاپور کو وزارتِ اعلیٰ سے ہٹانے اور مراد سعید کے شاگرد سمجھے جانے والے سہیل آفریدی کو نیا وزیراعلیٰ نامزد کرنے کا فیصلہ دراصل عمران خان کا وہ سیاسی قدم ہے جس سے ان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائی اپنے عروج پر پہنچ سکتی ہے۔ گنڈاپور، اپنی جوشیلی تقاریر اور سخت بیانات کے باوجود، عمران خان کے لیے اس وقت ناقابلِ قبول ہوگئے جب وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اس شدت سے مزاحمت نہ دکھا سکے جسکی عمران خان کو امید تھی۔ اب خان کی نظریں سہیل آفریدی پر ہیں۔ آفریدی ایک ایسا نوجوان ہے جو اپنے سیاسی استاد مراد سعید کی طرح اپنے رہنما کیلئے ہر حد تک جانے کیلئے تیار سمجھا جاتا ہے۔ عمران خان کے اس فیصلے کے دو بڑے ممکنہ نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ پہلا، عمران خان ایک نئی سیاسی تحریک کے ذریعے اپنی رہائی اور عوامی مقبولیت کے بیانیے کو اسلام آباد پر کسی بڑے عوامی دباؤ یا ممکنہ طور پر تصادم کی شکل دے سکتے ہیں۔ دوسرا، اور زیادہ خطرناک نتیجہ، خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کے مسئلے سے جڑا ہوا ہے عمران خان فوج اور وفاقی حکومت کی دہشتگردی کے خلاف حکمتِ عملی سے مطمئن نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بندوق کا سہارا لینے سے مسائل بڑھیں گے، کم نہیں ہوں گے۔ ان کی خواہش ہے کہ نہ تو دہشتگردوں کے خلاف عسکری کارروائی ہواور نہ ہی افغانستان سے تعلقات اس بنیاد پر خراب کیے جائیں کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ عمران خان گنڈاپور سے چاہتے تھے کہ وہ ایک طرف صوبے میں فوج کو آپریشن روکنے پر مجبور کریں، اور دوسری طرف صوبائی حکومت کے ذریعے افغانستان سے براہِ راست بات چیت کی راہ نکالیں۔ جب گنڈاپور اس سمت میں وہ پیش رفت نہ کر سکے جسکی عمران خان کو امید تھی، تو سہیل آفریدی کے نام پر فیصلہ سامنے آیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی بڑھ رہی ہے اور دہشتگردی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے، کیا خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کی تبدیلی اور اسکے پیچھے عمران خان کی سوچ ملک کیلئے مزید بحران پیدا نہیں کرے گی؟ اگر سہیل آفریدی واقعی عمران خان کی پالیسی کے مطابق چلتے ہیں، تو یہ فیصلہ عمران خان اور فوج کے درمیان تصادم کو اس حد تک لے جا سکتا ہے جہاں سے واپسی شاید ممکن نہ رہے۔ پہلا مرحلہ تو یہی ہوگا کہ سہیل آفریدی کے وزیراعلیٰ بننے کی راہ میں آئینی و قانونی رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی۔ ممکن ہے کہ یہ معاملہ عدالتوں تک جا پہنچے۔ لیکن اگر تحریک انصاف ان رکاوٹوں کو عبور کر لیتی ہے، تو یہ واضح اعلان ہوگا کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک کھلی لڑائی کے پوزیشن میں ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ عمران خان کی یہ جنگ اصولی ہے یا سیاسی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کا نتیجہ پاکستان کے مفاد میں ہوگا؟ کیا عمران خان کا یہ ’’انقلاب‘‘ جس کا خواب 9 مئی کو بھی دیکھا گیا تھا، ملک میں استحکام لائے گا یا افراتفری، جلاؤ گھیراؤ اور اداروں کے تصادم کو جنم دے گا؟ عمران خان ایک مقبول لیڈر ہیں، ان کے لاکھوں حامی ان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔ مگر قیادت کا امتحان اسی وقت ہوتا ہے جب فیصلے صرف اپنی ذات کیلئے نہیں، بلکہ ملک کے مستقبل کیلئے کیے جائیں۔ سیاست میں جوا کھیلنا بعض اوقات وقتی فائدہ دے جاتا ہے، مگر ریاستی نظام اور قومی سلامتی کے معاملات میں یہ کھیل اگر حد سے بڑھ جائے تو نقصان سب کا ہوتا ہے چاہے وہ عمران خان ہوں یا ان کے مخالف۔ عمران خان کو ضرور سوچنا چاہیے کہ اگر یہ جوا الٹا پڑ گیا تو کیا صرف ان کی سیاست کو نقصان ہوگا یا اس ملک کیلئے بھی ایک نیا بحران جنم لے گا، جو اب مزید کسی سیاسی تباہی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

تازہ ترین