پاکستان کی تاریخ میں اگر کسی جماعت نے سب سے زیادہ عملی طور پر خواتین کے حقوق، ان کے سماجی مقام اور سیاسی شرکت کیلئے جدوجہد کی ہے تو وہ پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔ پیپلز پارٹی کے نظریے کی بنیاد ہی عوام کی بالادستی، برابری اور سماجی انصاف پر رکھی گئی تھی۔ اسی نظریے نے خواتین کو گھر کی چار دیواری سے نکال کر قومی دھارے کا حصہ بنایا۔ مگر اس جدوجہد کا سب سے روشن اور لازوال باب شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی صورت میں لکھا گیا، جو نہ صرف پاکستان بلکہ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بنیں۔ ان کی قیادت نے نہ صرف پاکستان کی سیاست بلکہ جنوبی ایشیا میں عورت کے تصورِ قیادت کو ہمیشہ کیلئے بدل دیا۔
شہید بینظیر بھٹو نے ایسے معاشرے میں آنکھ کھولی جہاں عورت کی سیاسی آواز کو غیر سنجیدہ لیا جاتا تھا۔ مگر انہوں نے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے ویژن اور پیپلز پارٹی کے نظریاتی ورثے کو اپنی طاقت بنایا۔ وہ جب اقتدار میں آئیں تو ان کا اولین ہدف ہی یہ تھا کہ پاکستان کی عورت کو تعلیم، روزگار، صحت، اور فیصلہ سازی کے عمل میں برابر کا موقع دیا جائے۔ انہوں نے یہ نظریاتی وعدہ صرف نعروں میں نہیں، عملی اقدامات کے ذریعے پورا کیا۔بینظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں ملک کی تاریخ میں پہلی بار خواتین پولیس اسٹیشن قائم کیے گئے، تاکہ خواتین اپنے مسائل، شکایات اور مظالم کی روداد آزادانہ طور پر بیان کرسکیں۔ یہ قدم محض انتظامی اصلاح نہیں تھا بلکہ ایک سماجی انقلاب کی بنیاد تھا جس نے عورت کو اپنی عزتِ نفس کے ساتھ نظامِ انصاف تک رسائی دی۔ اسی دور میں پہلی بار لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام شروع ہوا جس نے ملک کے دیہی اور پسماندہ علاقوں میں خواتین کو نہ صرف روزگار فراہم کیا بلکہ لاکھوں گھروں تک صحت کی بنیادی سہولیات پہنچائیں۔ آج بھی یہ پروگرام پاکستان کے صحت کے نظام کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔
بینظیر بھٹو نے عورت کو محض ایک ووٹر یا حمایتی کے طور پر نہیں دیکھا بلکہ ایک فیصلہ ساز کے طور پر پہچان دی۔ انہوں نے خواتین کیلئے سرکاری ملازمتوں کے دروازے کھولے، مختلف وزارتوں اور سرکاری محکموں میں ان کی نمائندگی کو یقینی بنایا۔ ان کے وژن کی بدولت سینکڑوں خواتین نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں تک رسائی حاصل کی۔ آج پاکستان کی سیاست میں خواتین کی موجودگی اگر کسی حد تک معمول بن چکی ہے تو اس کی بنیاد بینظیر بھٹو نے ہی رکھی۔شہید محترمہ کا یہ یقین تھا کہ کوئی بھی معاشرہ تب تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک عورت کو برابر کا موقع نہ دیا جائے۔ وہ جانتی تھیں کہ عورت محض خاندان کی نگہبان نہیں بلکہ قومی ترقی کی کلید ہے۔ اسی سوچ کے تحت انہوں نے خواتین کی تعلیم کو خصوصی ترجیح دی۔ ان کے دور میں لڑکیوں کے اسکولوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، اسکالرشپ پروگرامز متعارف کرائے گئے اور تعلیم کے فروغ کو قومی ایجنڈے کا حصہ بنایا گیا۔شہید بینظیر بھٹو نے جب عالمی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کی تو وہ محض ایک وزیرِاعظم نہیں بلکہ مسلم عورت کی علامت بن گئیں۔ انہوں نے ثابت کیا کہ اسلام عورت کو قیادت، مساوات اور عزت دیتا ہے۔ ان کی شخصیت نے دنیا بھر میں یہ تاثر توڑا کہ مسلم معاشرے عورت کی قیادت قبول نہیں کرتے۔ ان کی تقریریں، ان کے فیصلے، اور ان کا کردار عورت کی خوداعتمادی کی علامت بن گیا۔
پیپلز پارٹی نے ان کے بعد بھی ان کے وژن کو زندہ رکھا۔ محترمہ کی شہادت کے بعد جب آصف علی زرداری صدر بنے تو انہوں نے ’خواتین کا عشرہ‘ منانے کا اعلان کیا اور عورتوں کے حقوق کیلئے کئی نئے اقدامات کیے۔ پیپلز پارٹی کے دوسرے دورِ حکومت میں خواتین کی سیاسی نمائندگی بڑھائی گئی، خواتین کی ملکیت کے حقوق کے تحفظ کیلئے قانون سازی کی گئی، اور ہراسگی کے خلاف قوانین متعارف کرائے گئے۔ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے عورتوں کے تحفظ، گھریلو تشدد کے خلاف قوانین اور وراثتی حقوق کے تحفظ کیلئے تاریخی بل منظور کیے۔سندھ میں بینظیر بھٹو شہید ویمن سپورٹ پروگرام اور سندھ ویمن ایگریکلچر ورکرز ایکٹ جیسے اقدامات پیپلز پارٹی کے اس عزم کا اظہار ہیں کہ عورت محض ووٹ دینے والی نہیں بلکہ ترقی کا ستون ہے۔ دیہی سندھ کی عورت، جو کبھی روایتی طور پر پیچھے سمجھی جاتی تھی، آج پیپلز پارٹی کے ویژن کے باعث زرعی اور سماجی شعبوں میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ شہید بینظیر بھٹو کی شہادت نے پاکستان کی عورت کو خوفزدہ نہیں کیا بلکہ مزید مضبوط بنایا۔ ان کی قربانی نے عورت کو یہ یقین دیا کہ قیادت، جدوجہد اور نظریہ جنس نہیں دیکھتے بلکہ کردار دیکھتے ہیں۔ آج بھی پاکستان کی ہر تعلیم یافتہ، خودمختار اور باحوصلہ خاتون میں بینظیر بھٹو کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ وہ ایک شخصیت نہیں، ایک عہد کی علامت بن چکی ہیں۔
پیپلز پارٹی کا نظریہ روٹی، کپڑا اور مکان صرف غربت کے خاتمے کا نعرہ نہیں بلکہ سماجی مساوات کی بنیاد ہے۔ اس نظریے کا سب سے مضبوط ستون عورت ہے۔ چاہے وہ گاؤں کی محنت کش ہو یا شہر کی تعلیم یافتہ خاتون، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اسے اپنی پالیسیوں کا مرکز بنایا۔
آج جب دنیا صنفی مساوات کے نئے تصورات پر بات کر رہی ہے تو پاکستان کے پاس شہید بینظیر بھٹو جیسی مثال موجود ہے، جو ان تمام تصورات سے دہائیاں پہلے عورت کے حقِ قیادت اور مساوات کی علامت بن گئیں۔ ان کی میراث ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ معاشرے میں حقیقی ترقی صرف اسی وقت ممکن ہے جب عورت کو برابر کا شراکت دار تسلیم کیا جائے۔