• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو سیاستدانوں کے ٹویٹ پڑھے۔ اچھے لگے۔ سوچا آپ سے بھی شیئر کر لوں کیوں کہ سوشل میڈیا پر دیے گئے یہ بیانات پاکستانی سیاست کی اندرغیر جمہوری رویے اور آمرانہ سوچ کو ظاہر کرتے ہیں جس پر عام طور پر پردہ ڈالا جاتا ہے۔ خواجہ سعد رفیق اور شیر افضل مروت کے تازہ ٹویٹس نے پاکستانی سیاست کے ایک ایسے ہی پہلو کو بے نقاب کیا ہے جہاں جذباتی وابستگیوں کے بل پر سیاست میں آنے والے مڈل کلاس کارکنوں کو استعمال کر کے پھینک دیا جاتا ہے۔ خواجہ صاحب نے اپنے ٹویٹ میں کیا لکھا اور اس میں اپنی پارٹی سمیت تمام سیاستدانوں کیلئے کیا پیغام دیا پہلے وہ پڑھ لیں:’’محترم شیر افضل مروت سے پہلی اتفاقیہ ملاقات چند ماہ پیشتر سپیکر چیمبر میں ہوئی، وہاں دیگر اراکین اسمبلی بھی موجود تھے۔ وہ جارھے تھے اور میں آرھا تھا۔ مصافحہ کے بعد میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ بُرا نہ مانیں تو ایک بات کہوں ، بولے ضرور! عرض کیا جب عمران خان جیل سے واپس آئیں گے تو جس شخص کو سب سے پہلے PTI سے نکالیں گے وہ شخصیت آپ ہونگے۔ دو ماہ نہیں گزرے تھے کہ پارلیمنٹ لاجز میں گزرتے ہوئے پھر آمنا سامنا ہوگیا، عمران صاحب شیر افضل صاحب کو پارٹی سے نکال چُکے تھے۔ ہم نے ایک دوسرے کو دیکھتے ہی ہنسنا شروع کردیا، شیر افضل بولے آپکی پیش گوئی وقت سے پہلے ہی پوری ہوگئی، میں نے پوچھا اتنا جلدی کیسےہوا؟ بتایا کہ میرا اخراج خان صاحب کی محترم ہمشیرہ اور اہلیہ محترمہ کی باہمی گروپنگ نہ جوائن کرنیکا شاخسانہ ہے۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے خیبرپختونخوا کے نئے وزیراعلیٰ بھولے بادشاہ لگتے ہیں، وہ بھی عشق ِعمران میں مبتلا ہیں۔ یہ کم بخت مڈل کلاسیے سیاسی کارکن straight Fighteہوتے ہیں، لیڈر اور جماعت کے عشق میں لڑتے لڑتے تنِ تنہا تلوار سونت کرمخالف کی صفوں میں گھُس جاتےہیں اور سب سے پہلے مارے جاتےہیں۔ خوش قسمتی سے بچ کر واپس آجائیں تو اپنے مار دیتے ہیں۔ ان غیر منظم اور نیم جمہوری جماعتوں میں سازشی جیتتے ہیں تلخ سچ بولنے والے نہیں۔ مڈل کلاسیوں کو تھپکی لڑنے کیلئے دی جاتی ہے، حکمرانی کیلئے نہیں۔

وقت آنے پر سہیل آفریدی صاحب کے عشق کا بھوت خود عمران خان صاحب ہی اتاریں گے۔’’ مشتری ہوشیار باش۔‘‘

خواجہ سعد رفیق نے نہایت خوبصورتی سے مڈل کلاس کارکن کے المیے کو بیان کیا ہے جس کو استعمال کرنے کا رجحان کسی ایک سیاسی جماعت سے نہیں بلکہ ن لیگ سمیت تقریباً ان تمام پارٹیوں میں ہے جن کی اکثریت چند خاندانوں کے کنٹرول میں ہے۔ خواجہ صاحب کے اس ٹویٹ پر شیر افضل مروت کا جواب بھی ٹویٹر پر سامنے آ گیا۔ وہ لکھتے ہیں:’’محترم خواجہ سعد رفیق صاحب،آپ نے میرے بارے میں جو لکھا، حقیقت پر مبنی ہے اور میں اس سچائی پر آپ کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ گزشتہ تین برسوں میں مجھے تین مرتبہ نکالا گیا، اور ہر بار کارکنان کے بھرپور ردِعمل پر واپس لیا گیا۔ یہ محض ادوار نہیں تھے؛ یہ وہ دروس تھے جو اکثر سیاست دان تین دہائیوں میں سیکھتے ہیں، مجھے تین برس میں مل گئے۔ مگر ایک حقیقت اور بھی تلخ ہے: کارکنوں کی محبت اور وابستگی کو کمزور کرنے کیلئے جب میرے خلاف سوشل میڈیا پر منظم کردارکشی کی گئی، تو یہ زخم دل میں رہ گیا۔ میں اسے نہ بھول سکا، نہ معاف کر سکا۔ غالب گمان ہے کہ یہی دراڑ میری پی ٹی آئی میں دوبارہ شمولیت کے راستے میں مستقل رکاوٹ بنی رہے گی۔ قیادت کی جانب سے خان صاحب کا پیغام بھی ملا کہ وہ مجھے واپس چاہتے ہیں؛ لیکن اب میں چوتھی بار نکالے جانےکے امکان کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میرا سفر اب جذبات اور نعروں کے بجائے عقل، تدبر اور دانائی کے زیرِ سایہ ہوگا۔ میرا ماننا ہے کہ مجھے عجلت میں نکالا گیا، مگر اب میں کسی کیلئےاستعمال ہونے کیلئے دستیاب نہیں کیونکہ سیاست میں خاموشی بھی ایک بیانیہ ہوتی ہے، اور میرا بیانیہ اب وقار، خودداری اور سکونِ دل ہے۔ آپ کی جماعت (مسلم لیگ ن) میں چند ہی شخصیات ہیں جنہیں میں حقیقی احترام کی نظر سے دیکھتا ہوں اور آپ ان میں سرفہرست ہیں۔ رہی میری اپنی راہ، تو میں نے خود کو تقدیر کے حوالے کر دیا ہے۔ دیکھتے ہیں آنے والے دن کیا ورق پلٹتے ہیں؛ اکثر اوقات تاریخ خاموش قدموں سے لکھی جاتی ہے۔

’’شیر افضل مروت۔‘‘

یہ دو ٹویٹس محض دو سیاست دانوں کے ذاتی خیالات نہیں، بلکہ پاکستانی سیاست کی اُس بڑی خرابی کی نشاندہی ہیں جسے درست کرنا لازم ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنی Internal Democracy کو بہتر بنائیں اور کارکنوں کو صرف ’’تھپکی‘‘پر لڑنے والا نہیں بلکہ حقیقی شراکت دار سمجھیں۔

تازہ ترین