پاکستان اور افغانستان کی جنگ تاریخی عجوبہ ، ایک ناقابل یقین واقعہ ہے ۔ سر آئینہ جو کچھ بھی ، سمجھ سے بالاتر ، یقین کامل کہ پس آئینہ جو کچھ بھی ، دل مائل ہے کہ اندر کھاتہ اس آپریشن میں افغان حکومت کی دلی ہمدردی حاصل ہے ، یہی وجہ کہ ہم نے چند دنوں میں فتنہ الخوارج پر تاک تاک کر ایسے نشانے لگائے کہ انکی کمر ٹوٹ گئی ۔ وطنی سیاسی بحران بے سمت ، بے لگام سرپٹ دوڑ رہا ہے ، ڈر کہ کہیں گہری کھائی منزل مقصود نہ ہو ۔ خوش آئند ! تحریک اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے ۔ لبیک جیسے خوبصورت لفظ کا استعمال عملاً شر کیلئے حاضر رہنا اور شر کو تحریک بنانا ، سمجھ سے بالاتر ہے ۔ جبکہ جانی و مالی نقصان اور نفسیاتی ہیجان نے ملک میں موجود سیاسی بحران کو دو چند کر رکھا ہے ۔ اب جبکہ حالات قابو میں ، TLP کے بانی مبانیوں کو نہیں بھولنا ہے ۔ ان جری جذبوں کویاد رکھنا ہوگا جب جنرل فیض حمید نے تزک و احتشام و اہتمام سے یہ گروہ پروان چڑھایا تاکہ نواز شریف حکومت متزلزل رہے ۔ عملاً مملکت لرزہ براندام ہوئی اور آج تک جانبر نہیں ہو پائی۔ نومبر دسمبر 2017ءنہ بھولنے والے ماہ ، نواز شریف سیاست کو تہہ تیغ کرنے کیلئے TLP کو 45 دن ’’طعام اور آرام دہ قیام ‘‘بمع سرد گزاری کیلئے لامحدود ڈرائی فروٹ سپلائی ، ادارتی ڈسپلن کیساتھ نافذ تھی جبکہ دم رخصت ، دھرنا پارٹی کو دن دیہاڑے سرکاری اعزاز کیساتھ دیہاڑیاں بانٹی گئیں ۔ کیسے بھول جائیںکہ 2017ءمیں TLP کی بھڑکائی آگ کے شعلے ایک عرصہ تک کئی قیمتی جانوں کو اپنی لپیٹ میں لینے کے درپے رہے ۔ اسی فتنہ فساد پر ایک صفحہ پر موجود پاکستان تحریک انصاف بمع تحریر و تقریر بذریعہ سوشل میڈیا اور ادارہ یکسوئی سے پیچھے سیسہ پلائی دیوا ر، عمران خان نے سیاسی دُکان چمکائی ۔ الاؤ پر ( ایک صفحہ ) ٹنوں کے حساب سے ایسا تیل چھڑکا کہ ملکی وجود خطرے میں پڑ گیا ۔
جسٹس قاضی فائز کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے جب دھرنے کے مجرموں کی نشاندہی کی تو ادارہ اور PTI یک جاں دو قالب ، قاضی فائز عیسیٰ کے در پے ، صفحہ ہستی سے مٹانے پر تل گئے ۔ قتل کی دھمکیاں ، بیوی بچوں پر دشنام طرازی ، گالم گلوچ کی بوچھاڑ ، کیا کچھ روبہ عمل نہ تھا ۔ ایک صفحہ یا یک جاں دو قالب کا شرمناک گٹھ جوڑ ، جب اقتدار میں آیا تو پہلی فرصت میں قاضی فائز کو بذریعہ ریفرنس بے عزت کرکے گھر بھیجنے کی ٹھانی ، وجہ کہ قاضی عیسیٰ نے TLP دھرنا پر ازخود نوٹس کیوں لیا ۔ جنرل فیض پر FIR کا حکم دینا اورPTI کو سہولت کار بتانے پر درندوں کا غول قاضی صاحب پر جھپٹ پڑا کہ ’’اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانہ میں ‘‘۔ تاریخی فیصلے کے بدلے میں قاضی فائز بمع اہلیہ کو عدالتوں ، FBR کہاں کہاں کے دھکے نہ کھانے پڑے ۔ بھلا جسے اللہ رکھے اسکے کون چکھے ، قاضی فائز عیسیٰ زندہ سلامت بچ نکلے ۔
اپریل2014ءتا اپریل 2022ء، عمران خان سیاست کی جمع تفریق اگر شر ، جھوٹ ، فتنہ انگیزی تھی تو اسکے پیچھے متحرک وہی نظام تھا جسکی کوکھ سے TLP نے جنم لیا ۔ کیسے بھولوں کہ جب سپریم کورٹ نے بلیک لا ڈکشنری کا کالا قانون نافذ کیا اور نواز شریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہل قرار دیا تو ضمنی الیکشن میں کلثوم نواز کو ہرانے میں PTI ، TLP اور ملی مسلم لیگ کی ملی بھگت کے پیچھے ، وہی تو تھا جو نظامِ وطن چلا رہا تھا ۔ آج جب TLP پر خط تنسیخ پھرنے کو ، بیخ کنی کا فیصلہ ہو چکا ہے ۔ عرض اتنی کہ فتنےکا بیج بونے ، آبیاری کرنے اور پروان چڑھانے والوں کو کیفر کردارتک پہنچانا ضروری ہے ۔ کاش میری زندگی میں ایک دفعہ ایسا ہو جائے ، ایسوں کو نشانِ عبرت بنا کہ کم از کم اس خانہ کو ہمیشہ کیلئے پُر کر دیا جائے ۔
خیبرپختونحوا میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی ، عمران خان بمقابلہ ریاست تناؤ کو بڑھانا ہے جبکہ مخاصمتی بیانیہ کو انتہا تک پہنچانا ہے ۔ پچھلے کئی کالموں میں صراحت کیساتھ اور اشارۃً قناعتاً لکھ چکا ہوں کہ علی امین گنڈاپور کا رول ختم شد ، شیلف لائف پوری ، چنانچہ انکا باعزت رخصت ہونا ٹھہر گیا تھا ۔ کئی مہینوں سے خدشہ کہ عمران خان بمقابلہ ریاست حتمی ٹکراؤ جانب پیش قدمی تیز ہو چکی ہے ۔
دھڑکا ! آنیوالا وقت عمران خان اور ریاست دونوں پر انتہائی کڑا رہنا ہے ۔ بلی تھیلے سے باہر ، جنرل فیض حمید کارڈ بھرپور استعمال ہونے کو ہے ۔ عمران خان کی اڈیالہ جیل سے ہائی سیکورٹی زون میں منتقلی اسی ضمن میں ہوگی ۔ علی امین گنڈاپور نے اپنا رول خوب نبھایا ، دیئے گئے ٹاسک کو بھرپور انداز میں پروان چڑھایا ۔ عمران خان کی لمحہ بہ لمحہ اشیرباد اور سپورٹ میسر تھی ۔ بدقسمتی سے کامیابی نہ ملی کہ عمران خان کنفیوزڈ ، یکسوئی سے محروم ، ناممکن خواہشات بدرجہ اتم موجود تھیں ۔ اب مایوس ہوکر تنگ آمد بجنگ آمد ٹھان چکے ہیں ۔ نئے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کے بارے ، پچھلے کالم میں جو کچھ لکھا اس پر قائم ہوں کہ اندرون خانہ ریاست سے تعاون کریں گے ۔ اگرچہ عمران خان نے ’صوبہ بمقابلہ ریاست ‘ ٹکراؤ کا ٹاسک دے رکھا ہے مگر وہ حتی المکان ٹکراؤ سے بچیں گے ۔ البتہ عمران خان کے سخت بیانیے کو زبانی کلامی بذریعہ بڑھکیں عام ضرور کریں گے ۔ ایسے موقع پر جبکہ طاقتور ریاست اپنے تئیں بھارت ، افغانستان کے چھکے چھڑوا چکی ہے اور اب TLP کے خلاف کارروائی پر تُلی ہے ۔ امکان اغلب ! طاقتور اسی ہلے میں عمران خان سے نبردآزما ہونے کا موقع نہیں گنوائیں گے ۔ عمران خان پچھلے کئی ماہ سے تن من دھن تناؤ بڑھا چکے ہیں ، سب کچھ جھونکنے کا مصمم ارادہ ہے ۔ بھارت ، افغانستان ، TLP کی طرح کیا عمران خان بھی طاقتور ریاست کے جال میں ، میرا خدشہ ! پھنسنے پر آمادہ ہو چکے ہیں ۔