تیرہ اکتوبر 2025کو مصر کے شہر شرم الشیخ میں ایک بہت بڑی تعداد میں دنیا کے سربراہان مملکت نے پچھلے دو سال سے غزہ میں جاری خونریز جنگ کو ایک بین الاقوامی امن معاہدہ کی دستاویز پر دستخط کرنے کے بعد ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ معاہدےکے نتیجے میں تقریباً ایک صدی پر محیط فلسطینیوں پر ہونیوالےظلم و ستم اور خون سے عبارت المیے کے ختم ہونے کے آغاز کی اُمید باندھی جا رہی ہے۔گو اس بیس نکاتی معاہدے میں بڑی حد تک مبہم شقیں موجود ہیں جسکی وجہ سےدنیا بھر کے بین الاقوامی امور کے مبصرین بھی ابھی گومگو کی کیفیت کا شکار ہیں۔ لیکن اس مایوسی کی فضا اور دستخط شدہ معاہدہ کی دستاویز میں وضاحت طلب شقوں کے باوجود اگر دیکھا جائے تو اس معاہدہ سے ایک اُمید کی کرن ضرور پھوٹتی دکھائی دیتی ہے اور اس میں چند نکات ایسے ہیں جن پر عملدرآمد کی صورت میں حقیقتاََ مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے ایک نئی جہت سامنے آئی ہے جو مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کی سمت ایک اہم قدم ثابت ہو سکتی ہے۔اس معاہدہ کے اندر چند ایسے نکات ہیں جن کا شاید آج سے چند ماہ پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے ایک ایسی امن دستاویز پر دستخط کیے ہیں جسکے تحت کسی فلسطینی کو غزہ سے بے دخل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی غزہ کو اسرائیل کے اندر ضم کیا جائے گا۔ اسکے ساتھ ہی ایک اہم نکتہ اس دستاویز میں واضح عندیہ لیے ہوئے ہے کہ امن و استحکام قائم ہونے کے بعد فلسطینیوں کو حق خود ارادیت بھی حاصل ہو سکے گا جسکے تحت انہیں اپنی ریاست قائم کرنے کا حق ممکن ہو سکتا ہے۔پوری صدی پر محیط اس تنازع کے حل کیلئے یہ بات پہلی بار امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے تسلیم کی جارہی ہے اور جس کو عملی صورت دینے سے مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کی توقع کی جا سکتی ہے۔اس معاہدے کے آخری نکتے میں امریکہ نے فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان مکالمہ کے ذریعے اعتماد کو بحال کرتے ہوئے باہمی بقا پر قائل کرنے کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔ گو ابھی اس معاہدے کی بہت سی جزئیات کے متضاد تشریحات کی زد میں آنے پراسکے بے اثر ہونے کا خدشہ موجود ہے جسکے پیش نظر ایک دائمی اور پائیدار امن کی منزل تک کا راستہ پُرخار اور رکاوٹوں سے بھرپور نظر آتاہےلیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دوسال کے ظلم وستم، ہزاروں شہادتوں اور خون کی ندیوں کے نذرانے کے عوض ایک صدی سے فلسطینی ریاست کے حصول کیلئے جاری جدوجہدکے ثمرات کا وقت آج سے پہلے کبھی اتنا قریب دکھائی نہیں دیا۔ اس سے پہلے یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ امریکہ اسرائیل کوکسی ایسے معاہدےپر دستخط کرنے پر مجبور کر سکتا ہے جس میں فلسطینی ریاست کے قیام کا اشارہ شامل ہو۔ لیکن شرم الشیخ میں طے پانے والے معاہدے میں اب پائیدار امن کے بار بار تذکرےکی تشریح فلسطینی ریاست پر ہی منتج ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
اس معاہدے کی سب سے حوصلہ افزا بات اسکی باضابطہ منعقدہ تقریب میں مشرق وسطیٰ اور خطے کے سرکردہ سربراہان کی موجودگی ہے جو اس معاہدےکی سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہے اور قوی امکان اور امید ہے کہ اس پر عمل درآمد کروانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔اس امن معاہدہ کی اہمیت کو اسلئے بھی سنجیدہ لینا چاہیے کہ امریکہ نے بڑی وسیع سوچ کے ساتھ اسکو تشکیل کیاہے جسکی ایک دلیل پاکستان کی اس میں شرکت ہے کیونکہ امریکہ اپنی طاقت اور اثرورسوخ کی قوت کے باوجود پاکستان جیسے علاقائی عسکری طاقت کے حامل ملک کو اس معاہدے میں شامل کر کے یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ ایک جامع امن کا خواہشمند ہے جس کیلئے خطے کی دو بڑی عسکری مسلم ریاستوں پاکستان اور ترکی کواس امن میں شراکت دار بنایا گیا ہے۔جو خطے کی ثقافتی اور مذہبی شناخت کی مربوطیت کو اجاگر کرتی ہے۔گو اسرائیل جیسے ناقابل اعتبار فریق کی شر پسندی کی تلوار ہر وقت غیر یقینی کے سر پر لٹکتی رہے گی لیکن مشرق وسطیٰ کا امن امریکہ کیلئے اب ناگزیر ہو چکا ہے اور امریکہ کے علاقائی حلیف دو ٹوک یہ پیغام دے رہے ہیں کہ یہ امن مسئلہ فلسطین کی موجودگی میں ممکن نہیں ہے لہٰذا امریکہ کیلئے یہ مشورہ صرف اسرائیل کی خاطر نظر انداز کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔اب یہ کوئی راز نہیں کہ امریکی ( Strategic )تزویراتی مفادات ایک پُر امن مشرق وسطیٰ کے متقاضی ہیں اور ایک پُرامن مشرق وسطیٰ منصفانہ مسئلہ فلسطین کے حل کا محتاج ہے جو طاقت سے نہیں افہام و تفہیم سے ہی حل ہو سکتا ہے لہٰذا امریکہ کو اپنے تزویراتی اہداف کو حاصل کرنے کیلئے بھی اپنے علاقائی حلیفوں کی رائے کو تقویت بخش کر اس راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی پالیسی پر گامزن ہونا پڑے گا۔ امریکہ اسرائیل کی منہ زور جارحیت کو لگام دئیے بغیر خطے کے حلیف ممالک کو مطمئن نہیں کرسکتا اور نہ ہی مسئلہ فلسطین کے حل کے بغیر پائیدار امن ممکن ہے جو ایک مستحکم مشرق وسطیٰ کیلئے نا گزیر ہے امریکہ کیلئے پورے خطے کو اپنے دائرہ اثر میں رکھنے اور تزویراتی مفادات کے تحفظ کی خاطر اب یہ معاہدہ جزوِ لاینفک کی حیثیت اختیار کر چکا ہے لہٰذا اب یہ قوی امکان ہے کہ اسرائیل کو پچھلی ایک صدی سے ملی ہوئی کھلی چھوٹ پر ایک طرح سے قدغن کا لگایا جانا وقت کا تقاضاہے۔جس کے بدلے میں امریکہ کے حلیف عرب ممالک کیلئے فلسطینیوں کو بھی امن کا راستہ اختیار کرنے پر قائل کرنے میں آسانی ہو گی اور اس طرح دیرپا امن کی اُمید باندھی جا سکتی ہے۔