کچھ دوست ایسے ہوتے ہیں جنہیں بھلانا بھی چاہیں تو بھلا نہیں سکتے اِن میں میرا ایک دوست فصیح الرشید خالد بھی تھا، اسے ہم کبھی فسی اور کبھی خالدی کہا کرتے تھے۔
بلا کا ذہین، انتہائی پڑھا لکھا، واش روم میں بھی کتاب ساتھ لے کر جاتا تھا۔لائٹ گئی ہوتی تو موم بتی جلا کر کتابیں پڑھتا تھا، چنانچہ اس کی کئی کتابوں پر موم بتی کے قطرے بھی ٹپکے ہوئے ہوتے تھے۔ انتہائی خوش مزاج اسکے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی تھی اس کی شخصیت انتہائی دلکش تھی اور حس مزاح اتنی زیادہ تھی کہ اسکے پاس بیٹھے ہوئے سب پریشانیاں رفع دفع ہو جاتی تھیں۔ہم دوست عین عالم شباب میں امریکہ گئے، باقی دوست تو وہیں بس گئے، میں اور مسعود علی خان امریکہ سے واپس پاکستان آ گئے۔گزشتہ دنوں ہمارے بہت پیارے دوست مالک کی لاش امریکہ سے واپس ماڈل ٹاؤن لاہور لائی گئی، اس کی وصیت تھی کہ اسے اس کی ماں کے پہلو میں دفن کیا جائے۔اس وقت امریکہ میں طارق بخاری اور منیر شاہ موجود ہیں، منیر شاہ کا بیٹا بھی سیٹل ہو چکا ہے۔خالدی کو مختلف قسم کے’’دورے‘‘پڑا کرتے تھے۔ کتاب پڑھنے پہ آیا تو ہر وقت کوئی کتاب پڑھتے نظر آتا تھا۔پینٹنگ کرنے پہ آتا تو کرتا ہی چلا جاتا، جن بلانے کا ایک کھیل ہم کھیلا کرتے تھے۔پھر دن کالونی میں گزرتا ۔خالدی امیر ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا، چنانچہ اس کی خواہش کے مطابق ہر چیز اس کے پاس تھی۔اس زمانے میں ایک بہت مہنگا موٹرسائیکل ہوتا تھا جسے وہ اندھا دھند چلاتا تھا۔ایک دن مجھے کہنے لگا یار تم کالج بس میں جاتے ہو میرا کالج بھی تمہارے کالج کے قریب ہے۔تم میرے ساتھ جایا کرو ایک دن میں اس کے ساتھ بیٹھ گیا اس نے فل ایکسی لیٹر دبایا اور موٹرسائیکل ہوا میں اُڑنے لگا، میں نے اس کے پیچھے بیٹھے اس کو جپھا ڈال لیا۔اور جب محسوس کیا کہ اس کی خوفناک ڈرائیونگ کے نتیجے میں ہم دونوں کی میت اکٹھی اٹھے گی،تو میں نے اسے کہا یار فسی کسی جھاڑی کے قریب بریک لگانا ایک’’ فطری ضرورت‘‘ہےاس نے ہنگامی حالات دیکھے تو بریک لگا دی اور میں نے دوڑ لگا دی۔پھر اس کے بعد یہ ہوا کہ ہمارا مشترکہ دوست مالک (مرحوم) امریکہ چلا گیا ۔ہمیں روزانہ وہاں کی رنگین زندگی کے قصے فون پر سناتا تھا جس سے انسپائر ہو کر منیر شاہ، طارق بخاری اور خالدی بھی امریکہ روانہ ہو گئے۔اور پیچھے میں اور میرا یارِ غار مسعود علی خان رہ گئے میں بہت کچھ بھول سکتا ہوں مگر اپنے ابا جی بہاء الحق قاسمی کے لاڈ پیار اور بے پناہ محبت کو کبھی نہیں بھول سکتااُنہوں نے مجھے اپنی زندگی اپنی خواہش کے مطابق گزارنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔وہ مجھے جامعہ اشرفیہ میں دینی تعلیم حاصل کرنے کیلئے داخل کرانا چاہتے تھے، میں اس وقت ایف اے میں پڑھتا تھا۔میں نے کہا، ابا جی، آج کے عالمِ دین کو جدید علوم سے بھی آگاہ ہونا چاہیے، مجھے ایم اے کرنے دیں۔جب میں نے ایم اے کر لیا تو میں نے کہا، ابا جی، میں اس ماحول میں ان فٹ ہوں، آپ مجھے گھر پر ہی تعلیم دے دیا کریں۔چنانچہ انہوں نے مجھے پورا قرآنِ مجید ترجمے کے ساتھ پڑھایا۔
اب دیکھیں بات کہاں کی کہاں نکل گئی، میں خالدی کی بات کر رہا تھا۔ایک دن میں اس کی طرف گیا، اُس نے دروازہ کھولا تو اُس کی آنکھوں میں عجیب وحشت نظر آئی۔اُس نے مجھے اجنبیوں کی طرح دیکھا اور دروازہ کھول دیا، میں اندر گیا تو خوف زدہ ہو گیا۔اندر مکمل طور پر اندھیرا تھا، کھڑکیوں پر رنگین پردوں کے بجائے کالے پردے لٹکائے ہوئے تھے۔مجھے بٹھا کر اندر گیا اور جب واپس ڈرائنگ روم میں آیا تو اس کے ہاتھ میں تیز دھار چاقو تھا۔اس نے اس پر انگلیاں پھیرتے ہوئے اپنی وحشتناک نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔اِس سے کسی کو قتل کیا جا سکتا ہے میں نے کہا کیوں نہیں صرف ایک منٹ بعد ......ایک منٹ پورا ہونے سے پہلے میں نے دروازہ کھولا اور دوڑ لگا دی اس پر اس طرح کی حالت کبھی کبھی طاری ہوتی تھی، عام حالات میں بھی وہی لا جواب خالدی ہوتا تھا۔جس سے ہم سب دوست بہت پیار کرتے تھے اور وہ ہم سے بہت پیار کرتا تھااس کی سوچ مکمل طور پر مغربی تھی اور لامذہب بھی تھا۔اس کی اصلاح کیلئے میں نے ایک زبردست مناظر قسم کے عالمِ دین کو بلایا۔
اُس نے کہا، تمہارے ذہن میں جتنے وسوسے ہیں کھل کر بیان کرو اور یہ بھول جاؤ کہ میں کوئی مذہبی شخصیت ہوں۔چنانچہ خالدی کے گھر میں نے دوسرے دوستوں کو بھی مدعو کر لیا تھا اور خالدی نے بہت خطرناک سوال کیے مناظر مولوی صاحب نے کہا مجھے آپ کے ہر سوال کا جواب دینے سے پہلے مجھے سارے سوالوں کا جواب دووہ تمام جوابات سوال تھے اور ان سوالات میں تمام مناظرانہ جواب تھے اس وقت خالدی مطمئن ہو گیا، مگر چونکہ جوابات عقلی نہیں بلکہ مناظرانہ تھے۔اس وقت تو خالدی اور دوسرے دوست بھی، جنہیں میں نے مدعو کیا تھا، پوری طرح مطمئن ہو گئے، مگر مناظرانہ جوابات کا اثر عارضی ہوتا ہے۔سو ایسا ہی ہوا اور خالدی نے مجھے دوبارہ گمراہ کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔