• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غزہ میں امن کی ایک نئی صبح طلوع ہوگئی ہے۔حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہوا۔غزہ اور اسرائیل، دونوں میں جشن منایا گیا، جب قیدی اپنے خاندانوں سے ملے۔اِس موقعے پر رقّت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے، لوگ رو رہے تھے اور کہیں خوشی کے آنسو بہہ رہے تھے۔ایسے میں ایک شخص یقیناً بہت خوش اور مطمئن تھا، جس کی سات مہینوں کی اَن تھک کوششوں کی وجہ سے یہ سب ممکن ہوا، اور وہ تھا، امریکا کا صدر، ڈونلڈ ٹرمپ۔ 

پاکستان کے وزیرِ اعظم، شہباز شریف نے بالکل درست کہا کہ’’صدر ٹرمپ نے لاکھوں جانیں بچائیں اور صحیح معنوں میں نوبل امن انعام کے مستحق تھے۔‘‘ جب تنقید بنتی ہو، تو ضرور کرنی چاہیے، لیکن جسے کوئی کریڈٹ جاتا ہو، اُس کی تعریف بھی ضروری ہے۔یہ’’ٹرمپ جنگی ڈپلومیسی‘‘ کی ایک غیر معمولی کام یابی ہے۔

سب کچھ اِتنی تیزی سے ہوا کہ خود غزہ اور اسرائیل کے عوام آخر تک بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا رہے، لیکن اِس امر کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اس امن کام یابی میں عالمی لیڈر شپ اور مسلم دنیا کو آگے آگے رکھا۔اُن کے دائیں، بائیں برطانیہ کے وزیرِ اعظم اسٹارمر، فرانس کے صدر میکرون اور اٹلی کی میلونی نظر آئے، جب کہ تُرکیہ کے اردوان، پاکستان کے شہباز شریف اور فلسطینی اسٹیٹ کے صدر محمود عباس بھی وہاں موجود تھے۔

حماس اور اسرائیلی وزیرِ اعظم کے ساتھ، ڈونلڈ ٹرمپ، مصر کے صدر السسیسی، امیرِ قطر اور فلسطینی اسٹیٹ کے صدر کے بھی معاہدے پر دست خط تھے۔غزہ کے عوام لاکھوں کے تعداد میں اپنے گھروں کو واپس آرہے ہیں اور اُن کے چہروں سے خوشی کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔

جہاں اسرائیل کے ظلم و بربریت کی پوری دنیا نے مذمّت کی، وہیں اب فلسطینیوں، حماس اور مسلم دنیا کو بھی غور کرنا ہوگا کہ 7 اکتوبر جیسے حملے کے نتائج نہتّے عوام کے لیے کس قدر خوف ناک ہوسکتے ہیں کہ صرف عالمی ضمیر یا اداروں پر نہتّے شہریوں کو نہیں چھوڑا جاسکتا۔پاکستان کے وزیرِ اعظم کی موجودگی میں صدر ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ پاکستان اور بھارت اچھے ہم سائے بن کر رہیں اور ان کے درمیان تجارت ہو۔

اب سفارتی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا فوکس غزہ میں قیامِ امن، قیدیوں کے تبادلے، شہریوں کی واپسی اور اسرائیلی فوجیوں کے غزہ سے انخلا جیسے معاملات پر ہے۔کیا یہ سب روڈ میپ کے مطابق ہوسکے گا اور کہاں کہاں ابہام ہے؟ یہ بہت اہم اور حسّاس معاملات ہیں۔ صدر ٹرمپ کے 20نکاتی پلان کے دوسرے مرحلے میں حماس کا غیر فوجی ہونا، عبوری حکومت کا قیام اور فلسطینی اسٹیٹ کی اصلاحات شامل ہیں تاکہ اقتدار فلسطینی اسٹیٹ کو منتقل ہوسکے۔

اِس منصوبے میں غزہ کے کھنڈر بنے شہر کی بحالی بھی شامل ہے۔صدر ٹرمپ اِن امور کی خُود نگرانی کریں گے، جب کہ برطانیہ کے سابق وزیرِ اعظم، ٹونی بلیر کا بھی اِس ضمن میں اہم کردار ہوگا۔اِس سیٹ اَپ کا ہیڈ کوارٹر مصر میں ہوگا۔مصر، قطر اور تُرکیہ کی فوجیں سیکیوریٹی امور دیکھیں گی، جب کہ غزہ سے باہر غالباً امریکی فوجیں اسے مانیٹر کریں گی۔

بظاہر یہ ایک جامع اور قابلِ عمل منصوبہ لگتا ہے، لیکن تجزیہ کار اس کے عملی پہلوؤں پر بہت بحث کر رہے ہیں۔اُن کا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا حماس تقریباً بیس سالہ حُکم رانی کے بعد غیر فوجی کردار ادا کرنے پر آمادہ ہوجائے گی۔ اِس سوال کا جواب تو حماس کا عمل ہی دے گا، لیکن کچھ چیزیں ذہن میں رہنی ضروری ہیں۔ اوّل، حماس ایران کی پراکسی ہے اور وہی اسے ہتھیار اور مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی سپورٹ فراہم کرتا تھا۔

تاہم، اسرائیل سے بارہ روزہ جنگ اور اقتصادی پابندیوں کے سبب اب وہ اِس قابل نہیں رہا کہ اپنا سابقہ فوجی کردار ادا کرسکے اور جارحانہ خارجہ پالیسی چلائے، جب کہ پاس دارانِ انقلاب بھی جنگ سے بُری طرح متاثر ہوئی۔حزب اللہ، جو مشرقِ وسطیٰ کی سب سے طاقت وَر ملیشیا تھی اور لبنان کی اصل حُکم ران رہی، اب غیر مؤثر ہوچُکی اور وہ سیاسی کردار کی طرف جارہی ہے۔ اِسی طرح حوثی باغی بھی یمن میں کوئی اہم کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہے۔

شام بھی اب ایران، اُس کی ملیشیاز، روس اور بشار کے تسلّط سے آزاد ہے۔اب ایسی صُورت میں حماس کی لیڈر شپ کیا فیصلہ کرتی ہے، یہ جَلد سامنے آجائے گا۔ویسے غزہ کے عوام اب کسی جنگ کا تصوّر بھی نہیں کرسکتے، اُن کے زخم بَھرنے اور بحالی کے لیے بہت وقت درکار ہے۔امن فارمولے کے مطابق سیکیوریٹی اور عبوری حکومت کا معاملہ ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔شاید عبوری حکومت میں عرب ممالک، تُرکیہ اور فلسطین کے ٹیکنوکریٹس شامل ہوں گے، جب کہ عرب اور مسلم ممالک کی امن فوج غزہ میں سیکیوریٹی خدمات سرانجام دے گی۔

دنیا جس مقصد کے لیے فلسطینیوں کا ساتھ دیتی ہے، وہ فلسطینی ریاست کا قیام ہے، تاہم اِس منزل کے حصول میں سب سے اہم کردار خود فلسطینیوں کا ہے۔دنیا میں آج تک آزادی کی کوئی ایسی جنگ نہیں جیتی گئی، جس میں قوم متحد نہ ہو۔سوال یہ ہے کہ کیا ایسا اتحاد فلسطینیوں میں موجود ہے؟بدقسمتی سے جواب نفی میں ہے۔ غزہ پر فلسطینیوں کے ایک دھڑے، حماس کی حُکم رانی ہے، جب کہ ویسٹ بینک یا مغربی کنارے پر محاذِ آزادیٔ فلسطین حُکومت کر رہی ہے۔ 

دونوں ایک دوسرے سے ہاتھ تک ملانے کو تیار نہیں۔ یاسر عرفات نے اوسلو مذاکرات کے ذریعے فلسطینی اتھارٹی کے قیام کا معاہدہ کیا تھا، جس کے وہ پہلے صدر بھی بنے۔ یہ اتھارٹی غزہ اور ویسٹ بینک پر مشتمل ہے، جسے اسرائیل نے اپنے قبضے سے آزاد کیا۔ غزہ، مصر اور ویسٹ بینک، اُردن کا حصّہ تھے، جن پر 1967ء کی جنگ میں اسرائیل قابض ہوا۔اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ جب تک عرفات زندہ رہے، بلاشرکتِ غیرے فلسطین کی آواز تھے۔اُن کے بعد فلسطینی دو حصّوں میں بٹ گئے۔

یہ بات ذہن میں رہے کہ دنیا اور اس کے عوام حماس کی حمایت نہیں کرتے، بلکہ وہ فلسطینیوں کے حقِ آزادی کے حامی ہیں۔غزہ میں جو ظلم ہوا، وہ دنیا کے لیے فلسطینیوں کی نسل کُشی تھی۔ حماس کی ہار اور جیت سے اُن کا کوئی لینا دینا نہیں۔ اکثر مغربی ممالک نے تو حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔اِس لیے جب فلسطین کی عالمی حمایت کی بات ہوتی ہے، تو اُس کا تعلق فلسطین کے عوام سے ہے نہ کہ حماس سے۔

اب جب شرم الشیخ امن معاہدہ ہوا ہے، تو اہم ترین بات یہ ہوگی کہ فلسطین کی لیڈر شپ اور حُکم رانی کیسے طے کی جائے۔اِس ضمن میں بنیادی کردار خود فلسطینیوں کا ہے۔اِس قدر مظالم اور تکالیف کے بعد اُنہیں کسی ایک لیڈر شپ پر متفّق ہوجانا چاہیے، جو انھیں حقوق کے حصول، بحالی اور ترقّی کا ویژن دے۔سب کچھ فلسطینیوں کو خود ہی کرنا ہوگا، کیوں کہ صدر ٹرمپ اور دنیا اُنھیں جو سہارا فراہم کر رہی ہے، وہ وقتی ہے، مستقل نہیں۔ 

ویت نام، الجزائر اور دوسری اقوام کی جدوجہدِ آزادی تاریخ میں محفوظ ہے،جہاں سب کچھ ان ممالک کے رہنماؤں ہی کو کرنا پڑا۔ عالمی فورمز جنگ رکوا سکتے ہیں، بڑی طاقتیں اور امیر ممالک امداد دے سکتے ہیں، لیکن کام یا ترقّی کی جدجہد تو بہرحال فلسطین کے عوام ہی کو کرنی ہوگی۔بے شک فلسطینیوں پر بے تحاشا ظلم و ستم ہوا، لیکن ماضی میں ظلم وجبر کا شکار کئی اقوام آج ترقّی پذیر اقوام کے لیے مثال ہیں۔

اِس ضمن میں جنوب مشرقی ایشیا پر نظر ڈال لیں، تو بہت کچھ واضح ہوجائے گا۔دوسری طرف، افغانستان کو دیکھ لیں، جس نے نہ صرف خود کو برباد کیا ہے بلکہ پڑوسی ممالک کے لیے بھی مستقل دردِ سر بنا ہوا ہے۔ وہاں سے ہونے والی دہشت گردی، پاکستان میں جو تباہی مچا رہی ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ فلسطینیوں کے چاروں اطراف امیرعرب ممالک ہیں، اگر وہ عقل مندی سے کام لیں، تو اِن ممالک کے تعاون سے خود امداد دینے والے بن جائیں گے۔ماضی کے سہانے خوابوں سے نکلیں اور خود کچھ کرکے اقوامِ عالم میں عزّت کا مقام حاصل کریں، وگرنہ صرف مظلوم ہی بنے رہے، تو انجام سوچا جاسکتا ہے۔

صدر ٹرمپ نے امن معاہدے کی تقریب میں پوری دنیا کے سامنے پاکستان کے وزیرِ اعظم اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی زبردست تعریف کی اور اِس کے ساتھ ہی اس خواہش کا بھی اعادہ کیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کا آغاز ہو۔اِس موقعے پر پاکستان کے وزیرِ اعظم نے اُنہیں نہ صرف لاکھوں لوگوں کی جانیں بچانے پر خراجِ تحسین پیش کیا بلکہ نوبل پرائز کا صحیح حق دار بھی قرار دیا۔ ٹرمپ نے اِس سے قبل بھی، جب پاک، بھارت جنگ بند کروانے میں کام یاب ہوئے، دونوں ممالک کو دوطرفہ تجارت کا کہا۔

اُنھوں نے جب صدارت سنبھالی، تو ہم نے اُسی وقت کہا تھا کہ پاکستان اور امریکی قیادت میں تعلقات کی بنیاد، تجارت ہوگی کہ دونوں ممالک میں تاجر خاندان اقتدار میں ہیں۔عمران خان اور اُن کی جماعت، پی ٹی آئی کی ساری آس، اُمیدیں، کوششیں اور اُن کے اوورسیز حامیوں کی لابنگ اِسی لیے دھری رہ گئی کہ ٹرمپ تجارت کو ہرچیز پر فوقیت دیتے ہیں۔ اِسی ایک نقطے پر ایک دوسرے کو سمجھنا آسان ہوگا۔مشرقِ وسطیٰ کا معاملہ تو امریکا نے سنبھال لیا اور وہ ایران سے بھی دوستی کی بات کر رہا ہے۔

جو تجزیہ کار ہر بات میں بے سوچے سمجھے’’جیو اسٹریٹیجی‘‘ کا ذکر کرتے ہیں، وہ ذرا جنوبی ایشیا میں حالیہ تبدیلیوں پر نظر دوڑا لیں۔ پاک، افغان جنگ، افغانستان کے وزیرِ خارجہ کا بھارت کا سات روزہ دورہ اور پاکستان میں دہشت گردی کی غیر معمولی لہر، جس میں افغان سرزمین اور بھارتی سپورٹ شامل ہے، بہت اہم ڈیویلپمینٹس ہیں۔ 

نیز، ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ حکومت کے تمام تر دعووں اور کچھ عالمی اداروں کی اچھی باتوں کے باوجود مُلک کی معیشت کم زور کیوں ہے، جس میں غریب تو کیا، مِڈل کلاس کا بھی جینا دوبھر ہو گیا ہے، منہگائی اور بجلی کے بلز نے نہ صرف عام آدمی بلکہ صنعت کاروں کو فیکٹریز بند کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہمارا مال اب بیرونِ مُلک مقابلہ نہیں کرسکتا۔ 

بڑی بڑی غیر مُلکی کمپنیز مُلک چھوڑ کر جار ہی ہیں، باوجودیکہ کہ حکومت اور وزیرِ خزانہ کا دعویٰ ہے کہ سرمایہ کاری کا ماحول بہترین ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے پر معاہدے، مگر مُلک میں سرمایہ نہیں آرہا کہ امن و امان  کی اس صُورتِ حال اور خطّے میں جاری کش مکش میں کون سرمایہ لگائے گا۔ حکومت کہتی ہے، ٹیکنالوجی کا انفرا اسٹرکچر مضبوط ہو رہا ہے، لیکن عام آدمی کسی طرح مطمئن نہیں۔ نوجوانوں کے پاس نوکریاں نہیں ہیں۔اُنھیں اسکلز سکھائی جا رہی ہیں، لیکن وہ کریں گے کیا۔ اوپر سے انتہا پسند تنظیموں کے خون ریز لانگ مارچ اور دھرنے، جس سے پورا پورا ہفتہ کاروبار ٹھپ ہوجاتا ہے۔

کیا ایسے میں ہمیں اُن تمام آپشنز پر غور نہیں کرنا چاہیے، جو اِس صُورتِ حال میں بہتری لاسکیں۔یہ مُلک عوام کا ہے، نہ کہ کسی خاص طبقے اور ایجنڈے کا۔ اقتصادی حالات میں بہتری لا سکیں گے، تو ہی زمین پر کچھ نظر آئے گا، وگرنہ طاقت کے جتنے مرضی دعوے کرلیں، سب بے معنی ہیں، کیوں کہ طاقت اور قوّت کا اصل پیمانہ تو معیشت کی مضبوطی اور عوام کی خوش حالی ہے۔پھر اس حکومت کا تو منشور ہی معیشت اور ہم سایوں سے بہتر تعلقات قائم کرنا ہے۔ 

تمام جماعتوں کو اپنے اپنے ایجنڈے اُس وقت ایک طرف رکھ دینے ہوں گے، جب تک عوام خوش حال نہیں ہو جاتے۔ دنیا کے بہت سے ممالک نے اِس طرح کے اہداف حاصل کیے ہیں، مگر یہاں ہر کوئی اپنا راگ الاپنے میں مصروف ہے۔کوئی کہتا ہے ہمارے پاس اتنے لاکھ افراد ہیں، کوئی اپنے کلٹ کے دعوے کرتا ہے، کوئی مذہبی معاملات کو اوّلیت دیتا ہے، بات یہ ہے کہ آپ سب کچھ کرلیں، لیکن عوام کو سُکھ تو لینے دیں۔ ہم چین کی مثالیں دیتے ہیں، مگر ذرا وہاں جاکر تو دیکھیں کہ اُنہوں نے کس طرح یہ مقام حاصل کیا۔ماضی سے نکلیں اور حال کا مقابلہ کریں۔

اگر ہم سُپر پاور کے سُپر صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کو امن اور معاشی حالات پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں، تو کیا اُن سے عملی فوائد نہیں اُٹھا سکتے، جب کہ وہ خود اِس سلسلے میں بار بار مدد کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔جب اسرائیل اور حماس ایک میز پر بیٹھ کر کوئی راہ نکالنے کی کوشش کر سکتے ہیں، تو کیا ہمارے لیڈر، جو معیشت کی بہتری کا عزم کرتے نہیں تھکتے، اِس سمت میں آگے نہیں بڑھ سکتے؟جب کہ اُن کی پُشت پر صدر ٹرمپ جیسا مضبوط صدر بھی موجود ہے، جس کی ایک خُوبی یہ بھی ہے کہ اُن کے دوستی بھارت، روس اور چین، یعنی سب سے ہے۔

یہ بات بھی درست ہے کہ پاکستان اور بھارت، دونوں طرف ایسے سخت گیر موجود ہیں، جو دونوں ممالک کو قریب آنے اور تجارت کرنے سے روکتے ہیں، لیکن اگر دونوں ممالک کے عوام کو ایک بار یہ سمجھ میں آگیا کہ کس میں فائدہ اور کس میں نقصان ہے، تو دونوں طرف کے انتہا پسند پانی کی طرح بہہ جائیں گے۔ ہمیں صدر ٹرمپ کی خواہش کو ایک موقع تو ضرور دینا چاہیے۔ افغانستان تو پہل کر چُکا کہ ایک’’جہادی حکومت‘‘ کے باوجود ہندوتوا کی حامی حکومت سے گلے مل رہا ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید
عالمی منظر نامہ سے مزید