برطانیہ کے دارالحکومت، لندن کے مرکز میں13 ستمبر کو ایک بہت بڑی ریلی نکالی گئی، جس کا عنوان تھا’’یونائٹ دی نیشن‘‘یعنی قوم کو متحد کرو، لیکن ریلی دیکھتے ہی دیکھتے تارکینِ وطن کے خلاف نفرت کے شعلوں میں تبدیل ہوگئی۔ شعلوں میں اِس لیے کہ اس کی لگائی آگ مُلک کے طول و عرض میں پھیل رہی ہے۔وہاں عمومی نعرہ یہ تھا کہ’’تارکینِ وطن واپس جاؤ‘‘،’’امیگریشن نہیں، یہ انویژن یعنی حملہ ہے۔‘‘
اِس ریلی میں شرکت کرنے والے مقامی گورے تھے، جن کا تعلق’’ گریٹ بریٹن‘‘ کے ہر علاقے سے تھا۔ دوسرے الفاظ میں، اسے انگریزوں کی ایک نمائندہ ریلی کہا جاسکتا ہے، جو شاید سالوں بعد دیکھنے میں آئی۔ اس کی کال ایک پاپولسٹ، دائیں بازو کے لیڈر، ٹامی رابنسن نے دی تھی۔ یہ ورکنگ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی پارٹی بڑی تیزی سے نہ صرف مقبول ہو رہی ہے، بلکہ اس کے مطالبات کا دباؤ، حُکم ران لیبر پارٹی اور کنزرویٹو پارٹی پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
ہم گزشتہ اٹھارہ سالوں سے برطانیہ جارہے ہیں اور وہاں کے بدلتے سیاسی، سماجی اور معاشرتی افق کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اپنے اوورسیز بھائیوں کی اُس اُمڈتے طوفان کی طرف توجّہ دلائیں، جو اب نفرت کے کالے بادلوں کی شکل میں برسنا شروع ہوچُکا ہے۔ ڈیڑھ لاکھ گوروں کی تارکینِ وطن کے خلاف ریلی کی اہمیت اِس لیے بھی ہے کہ یہ تارکینِ وطن سے نفرت کا عملی اظہار بن گئی اور وہ بھی لندن جیسے بین الاقوامی شہر میں، جس کے ملٹی کلچرل معاشرے کی مثال دنیا بَھر میں دی جاتی ہے۔
دائیں بازو کی تارکینِ وطن سے نفرت کی سیاست صرف برطانیہ تک محدود نہیں، بلکہ یہ یورپ، امریکا اور مغربی ممالک میں بھی عام ہو رہی ہے۔ ہم صرف یہاں ایک مثال دیں گے کہ جاپان جیسے ایشیا کے ایک الگ تھلگ مُلک میں دوسری بار دائیں بازو کی وزیرِ اعظم منتخب ہوئی ہیں۔ وہ’’آئرن لیڈی‘‘کہتی ہیں کہ’’ جاپان کو پھر سے نیشنلسٹ بناؤں گی اور ایک بڑی فوجی طاقت بھی۔‘‘
13ستمبر کی تارکینِ وطن مخالف ریلی نہ تو برطانیہ میں پہلی ہے اور نہ ہی رابنسن جیسے دائیں بازو کے لیڈر پہلی بار مغربی سیاست میں داخل ہوئے ہیں۔اِس سے قبل بھی کئی اینٹی ایمی گرینٹس بلوے ہوچُکے ہیں، لیکن اِس معاملے میں کبھی زیادہ شدّت نہیں آئی، کیوں کہ اُس وقت گوروں کی وہ نسل موجود تھی، جس نے ہندوستان پر راج کیا اور وہاں کے لوگوں سے میل جول رکھا، مگر اِس وقت کی نسل کو پتا بھی نہیں کہ دہلی اور لاہور کیا ہیں، وہ تو اُن پاکستانیوں یا بھارتیوں کو جانتے ہیں، جو اُن کے مُلک میں رہتے ہیں اور اس کے وسائل استعمال کرتے ہیں۔
اِسی لیے اِس مرتبہ تارکینِ وطن، خاص طور پر مسلم مخالف لہر بڑھتی جارہی ہے اور اسے مسلسل نیا خون بھی مل رہا ہے۔ بریگزٹ ان کی فتح کا ٹریڈ مارک ہے۔نیز، اُنہیں سوشل میڈیا جیسا ہمہ گیر میڈیا بھی میسّر آگیا ہے اور مشکل یہ ہے کہ اس کے خلاف اچھی، مدلّل تقاریر کرنے والے یا اخلاقیات کے ماہر بھی ناکام ہوتے جا رہے ہیں۔ تارکینِ وطن سے نفرت کی سیاست کو مہمیز شام کی خانہ جنگی سے ملی، جب بشار الاسد جیسے آمر کے ظلم سے تنگ لاکھوں شہری جائے پناہ کی تلاش اور زندگیاں بچانے کے لیے اِدھر اُدھر بھاگنے پر مجبور ہوئے۔
اُنہیں بشار الاسد کے ظلم، روس کی بم باری، ایران اور اس کی اتحادی ملیشیاز کی یلغار سے بچانے والا کوئی نہیں تھا۔ مسلم ممالک خاموش تماشائی بنے رہے اور ساڑھے پانچ لاکھ شامی شہریوں کی ہلاکت پر بھی بے دار نہ ہوسکے۔ یہ لاکھوں شہری ترکی، اردن اور عراق کے سرحدی کیمپس میں کھانے تک کو ترستے رہے، جب کہ لاکھوں شہری ٹرالرز یا چھوٹی کشتیوں میں ٹھنس کر جان بچانے کے لیے بحرِ روم پار کر کے غیر قانونی طور پر یورپ جانے لگے۔
اُس زمانے تک یعنی پندرہ سال قبل یورپ میں ہیومن رائٹس کا بہت زور تھا۔ یورپی ممالک نے تارکینِ وطن کو کُھلے بازؤں سے گلے لگایا، لیکن معاشرتی، سماجی اور تہذیبی فرق نے جلد ہی اِس پُرجوش استقبال کو بدترین نفرت میں بدل دیا۔حالات بدلے، کُھلے راستوں میں خار دار باڑیں لگ گئیں۔ شہروں کی کُھلی فضا سے یہ تارکینِ وطن کیمپس میں منتقل ہونے لگے۔ان کے مذہبی رسم و رواج نفرت کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے۔
پہلے یہ سماجی حد تک تھا، پھر ان تارکینِ وطن کے ہول ناک جرائم کی خبریں آنے لگیں اور پھر باقاعدہ دائیں بازو کی منظّم جماعتوں نے زور پکڑنا شروع کردیا۔ اس کا ایک نتیجہ جرمنی میں مرکل کی شکست کی صُورت ظاہر ہوا، جو تارکینِ وطن کی حامی تھیں۔اُدھر امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ، غیر قانونی تارکینِ وطن کے سب سے بڑے دشمن بن کر اُبھرے۔
اُنہوں نے حال ہی میں فرمایا کہ یورپ کو تارکینِ وطن ڈبو رہے ہیں۔ اُنہوں نے امریکی یونی ورسٹیز میں فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کی مخالفت پر طلبہ کے ویزے منسوخ کیے اور انہیں ڈی پورٹ کردیا۔ ہارورڈ اور کولمبیا جیسی یونی ورسٹیز کی امداد بند کردی۔ ججز نے ان طلبہ کو ضمانت دی، تو اُن کی تن خواہیں روک لی گئیں۔ یہ وہ گائیڈ لائنز ہیں، جو مغربی ممالک میں اب مثال بن گئی ہیں اور سوشل میڈیا کی سب سے وائرل پوسٹس بھی۔قانونی اور غیر قانونی تارکینِ وطن اب لرز رہے ہیں کہ کب ان کی ڈی پورٹیشن کا حُکم آجائے۔
پاکستانی اوورسیز کی تعداد90لاکھ ہے اور ان میں سے زیادہ تر، یعنی60 سے65 لاکھ عرب ممالک میں ملازمت کرتے ہیں، جنہیں شہریت کے حقوق حاصل نہیں۔12 لاکھ پاکستانی برطانیہ میں برٹش پاکستانی ہیں، یعنی برطانیہ کے شہری۔ باقی یورپ اور دوسرے ممالک میں آباد ہیں، لیکن یہ بکھرے ہوئے ہیں، اِسی لیے اُن کا ذکر بہت کم ہوتا ہے۔ اِسی طرح5 لاکھ سے کچھ زیادہ پاکستانی، امریکا میں مقیم ہیں۔
غیر قانونی پاکستانی تارکینِ وطن کی تعداد بھی چند لاکھ بتائی جاتی ہے، جو برطانیہ، امریکا اور یورپ جاتے ہیں اور وہاں آباد ہونے کی کوشش میں اپنی زندگی گزار دیتے ہیں۔ یہ افراد قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے شہریت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان تارکینِ وطن کی زندگی کا مقصد مغربی ممالککی شہریت کا حصول ہے، لیکن جو کام اُنہیں کرنا چاہیے، نہ نہیں کرتے، یعنی میزبان مُلک کو اپنا گھر بنانا۔ حکومت خوش ہے کہ تارکینِ وطن کی جانب سے بھیجا گیا زرِ مبادلہ ان کی نا اہل حُکم رانی اور گرتی معیشت کا سہارا ہے، اِسی لیے اوورسیز پاکستانیوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
برطانیہ میں پاکستانی اِس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہاں کئی شہر’’ مِنی پاکستان‘‘ ہیں۔ نیز، وہ برطانیہ کے شہری ضرور بن گئے ہیں، لیکن وہاں کی اکثریتی آبادی سے اُن کا سماجی و معاشرتی تعلق نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم نے اکثر اُنہیں گوری آبادی کے تہواروں کا ذکر حقارت سے کرتے دیکھا۔ان کی خوشی یا غمی میں شریک ہونا تو دُور کی بات، یہ اُس دن اپنے دوستوں یا کمیونٹی کے ساتھ الگ تقریبات مناتے ہیں۔
ہم نے گزشتہ اٹھارہ سال میں کسی بھی کمیونٹی تقریب میں گوروں کی کسی فیملی کو نہیں دیکھا۔ان کے بازار الگ ہیں، دکانیں الگ۔ یہ سوائے مطلب کے اُن سے بات تک نہیں کرتے۔پھر پاکستانی ہی نہیں، جنوب ایشیائی افراد کی محافل میں برطانیہ کے ظلم کا ذکر ہوتا رہتا ہے۔ان کے طور طریقوں پر اعتراض بھی عام ہے۔البتہ بڑے فنکشنز میں گوروں کو’’تبرّک‘‘ کے طور پر بلایا جاتا ہے یا پھر فنڈز جمع کرنے کے لیے۔
یہ تو سماجی صُورتِ حال ہے، جب کہ سیاسی طور پر بھی یہ تارکینِ وطن بُری طرح بٹے ہوئے ہیں۔سب سے بڑی خرابی تو یہ ہے کہ اپنے آبائی مُلک کی سیاست، جس میں نفرت کا عُنصر غالب ہے، اُس سے الگ ہونے کو تیار نہیں۔ افسوس، پاکستانی پریس اور سوشل میڈیا کے شہسوار اِس نفرت کو بڑے جوش و خروش سے وائرل کرتے ہیں۔ عمران خان کے اقتدار سے اُترنے پر یہ گندی سیاست زیادہ عام ہوئی۔
بہت سے خوش حال پاکستانی اِس نفرت انگیز سیاست میں پیسے لگاتے ہیں اور جب اُن کی پارٹی پاکستان میں پاور میں آجاتی ہے، تو یہاں وزارتیں اور مال سمیٹنے آ جاتے ہیں اور بعد میں بھاگ کر ڈوئل نیشنلٹی یا اسائلم کی آڑ میں چُھپ جاتے ہیں۔ چھوٹی ذہنیت کے پاکستانی سیاست دان اُنہیں اچھے شہری بننے کی تلقین کرنے کی بجائے، اپنی گھناؤنی سیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اب نفرت کا ایسا ہی بیانیہ اُن کے گلے پڑ گیا ہے۔
اب انہیں پتا چل رہا ہے کہ ہوٹلز یا سڑکوں پر کس طرح نفرت کی جاتی ہے، جب گورے ان کے ساتھ یہی کر رہے ہیں۔ گوروں نے دیکھ لیا کہ جب یہ اپنے ہم وطنوں کے نہیں، تو ہمارے کیا بنیں گے۔ یاد رہے، انگریز سو سال آگے کی سیاست اور منصوبہ بندی کرتے ہیں، اِسی لیے ہم محکوم اور وہ اب بھی حاکم ہیں۔ وہاں ریلیاں نکالنے کی اجازت بھی اب بند ہونے کو ہے اور انسانی حقوق کا حال تو غزہ میں دیکھ ہی لیا ہے۔ ایک اور دُکھ کی بات یہ ہے کہ جنوبی ایشیا، خاص طور پر پاکستان سے جانے والوں کی اکثریت پس ماندہ ترین کمیونٹیز میں شمار ہوتی ہے۔ٹیکسی چلانا، تندور پر کام یا چھوٹی موٹی مزدوری ہی ان کی شناخت ہے۔
یہاں تک کہ انجینئیرز، ڈاکٹرز اور پڑھے لکھے نوجوان بھی اچھی زندگی کی آس میں اِسی طرح کے کاموں میں وقت گزار رہے ہیں اور شرمندہ بھی نہیں ہوتے کہ ایسی بے مقصد زندگی کا کیا فائدہ۔ایک اور مصیبت یہ ہے کہ تارکینِ وطن گھناؤنے جرائم میں بھی ملوّث ہو رہے ہیں اور کمیونٹی کی طرف سے ایسے جرائم پیشہ افراد کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھائی جاتی۔
اب دائیں بازو کی جماعتیں اِن ایشوز پر سیاست کر رہی ہیں اور لاکھوں مقامی افراد اُن کی ریلیوں میں شریک بھی ہو رہے ہیں۔ ہم نے کئی پاکستانیوں سے بات کی، تو اُنہوں نے دُکھ اور خوف سے کہا کہ’’تیس، چالیس سال یہاں رہنے، اسے اپنا مُلک سمجھنے کے بعد اب جوان بچّوں کو لے کر کہاں جائیں گے۔‘‘
پاکستانی دیارِ غیر میں ہر مسئلے پر احتجاج ریکارڈ کروانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اپنی دکان چمکانے والے اور پاؤنڈز یا ڈالرز پر نظر رکھنے والی تنظیمیں ان کا لہو اور جذبات بھڑکاتے رہتے ہیں۔ اس رویّے کا انجام امریکا کی یونی ورسٹیز میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدام کی صُورت سامنے آگیا اور ایسا ہی کچھ برطانیہ یا یورپ میں بھی ہور ہا ہے۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ تارکینِ وطن اُس ملک میں شہری ضرور ہیں، لیکن اکثریت میں ہیں اور نہ ہی وہ پالیسی ساز ہیں۔وہ تو صرف ایک خوش گوار زندگی گزارنے کے لیے وہاں آباد ہوئے ہیں۔ اُنھیں وہاں کے مزاج اور معاشرے کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے۔
یہ باتیں تلخ ضرور ہیں، مگر انہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ کیا تارکینِ وطن کو ایک دن اُسی طرح برطانیہ، امریکا اور یورپ چھوڑنا پڑے گا، جیسے اسپین سے مسلمانوں کو نکالا گیا یا عثمانی سلطنت کے زوال کے بعد یورپ چھوڑنا پڑا۔ برطانیہ کی حُکم ران لیبر پارٹی نے بھی، جو خاصی بڑی لبرل، انسانی حقوق کی داعی اور تارکینِ وطن کی ہم درد سمجھی جاتی ہے، دائیں بازو کے تارکینِ وطن مخالف بیانیے کا اثر لیا ہے اور اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ انسانی حقوق کے یورپی کنونشن سے دست بردار ہوجائے گی۔
اس کے ساتھ، برطانوی وزیرِ اعظم اسٹارمر روز بروز تارکینِ وطن اور غیر قانونی آنے والوں کے برتھ رائٹ، شہریت اور دیگر معاملات میں سخت قوانین لارہے ہیں، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ تارکینِ وطن کے خلاف جاری مہم کے سامنے بند باندھنے کی سکت نہیں رکھتے۔
لیبر پارٹی، پاکستانیوں کی پسندیدہ جماعت ہے۔ تارکینِ وطن کو سوچنا چاہیے کہ جب برطانوی شہریوں نے بریگزٹ کے ذریعے خود کو اپنے یورپی بھائیوں سے الگ کر لیا، جو اُن کی نسل ہی سے تعلق رکھتے ہیں، تو پھر پاکستانی، بنگلا دیشی اور دیگر کی کیا اوقات ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ تارکینِ وطن کے خلاف زیادہ آگے نہیں جاسکتے، کیوں کہ افرادی قوّت کے ضمن میں وہ اُن کی ضرورت ہیں، مگر آرٹی فیشل انٹیلی جینس کے بڑھتے استعمال سے تارکینِ وطن پر انحصار کم ہوتا جا رہا ہے۔
اب مسئلے کا حل کیا ہے؟ پاکستانی ہو یا کوئی اور تارکینِ وطن پر مشتمل کمیونٹی، انہیں آگے بڑھ کر برطانیہ، یورپ یا امریکا کو اپنا مُلک بنانا پڑے گا۔انہیں وہاں کی منتخب حکومتوں اور رہنماؤں کی پالیسیز اپنانی ہوں گی، اِس لیے نہیں کہ یہ مجبوری ہے، بلکہ انہیں سمجھنا ہوگا کہ اس ملک کا مفاد اسی میں ہے اور وہ اس کا حصّہ ہیں۔
علاوہ ازیں، اپنے آبائی مُلک کی سیاست کو خیرباد کہنا ہوگا۔اپنا مذہبی اور ثقافتی تشخّص برقرار رکھتے ہوئے، دوسرے کے مذہب اور کلچر کو بھی اُتنی ہی اہمیت دینی ہوگی۔اپنے تہواروں میں انہیں شریک اور ان کے تہواروں میں خود شریک ہوکر بھی ماحول بہتر بنایا جاسکتا ہے۔یہ الگ الگ’’مِنی پاکستان‘‘ بنانے کی حماقتوں کو خیرباد کہہ کر ان شہروں کو اپنا شہر سمجھنا ہوگا۔
مجرم چاہے کسی بھی کمیونٹی کا ہو، اُسے روکنا اور اِس طرح کے واقعات کی کُھلے عام مذمّت کرنا ضروری ہے۔ دوسرے الفاظ میں خود کو جرائم پیشہ افراد سے الگ کرنا ہوگا تاکہ کسی شخص کا انفرادی فعل، پوری کمیونٹی پر نہ تھوپا جاسکے۔
اپنی کمیونٹی کو مثالی اخلاقیات کا گہوارہ بنانا چاہیے تاکہ مقامی افراد بھی اُس کی طرف مائل ہوسکیں۔ اپنے بچّوں کو تعلیم، خاص طور پر ٹیکنالوجی میں آگے بڑھانا ہوگا تاکہ کل کوئی یہ نہ کہے کہ یہ’’ برٹش پاکستانی‘‘ ہیں، بلکہ کہیں کہ یہ’’برطانوی شہری‘‘ ہیں، چاہے ان کا پس منظر کچھ بھی ہو۔