خطۂ ارضی دھوکہ دہی ، مکر و فریب کی گرفت میں ، مملکت خداداد اس مدمیں سر فہرست ، وطنی و عالمی منظر ناموں پر معرکہ ہائے حق و باطل جاری و ساری ہیں ۔ بڑی دھوکہ بازی ’’حالیہ غزہ جنگ بندی ‘‘، جہاں فلسطینیوں کی 77 سالہ تحریک آزادی کو دفنانے میں ہندو مسلم سکھ عیسائی ، سب بھائی مسئلہ فلسطین دبانے میں مستعد و پیش پیش ۔ پاک افغان جنگ بھی سامنے کچھ اور پسِ منظر میں شاید مختلف ، خوش آئند اتنا کہ ان شاء اللہ چند ماہ بعد دونوں یک جاں دو قالب ، عالمی منظر نامہ پر ایسے نمودار ہونگے کہ جیسے کبھی اختلافات رہے ہی نہیں تھے ۔
مملکت خداداد کا پچھلے 74 سال ، 9 ماہ ، 16 دن کا احاطہ کریں تو لب لباب اتنا کہ طاقتوروں اور سیاستدانوں نے اپنے ہی لوگوں کو بیوقوف بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ طاقتور مقتدرہ سے شکایت بنتی نہیں کہ طاقت کا نشہ ’’سب کچھ کر گزرنے ‘‘کی استطاعت اور استعداد سے مالا مال رہتا ہے ۔ مگر سیاستدانوں کا اپنے اپنے ماننے چاہنے والوں کو دھوکہ دینا سمجھ اور اخلاقی اقدار سے بالاتر ہے ۔ پاکستانی سیاست میں شخصیت پرستی اور اندھی عقیدت قومی شعار ہے ۔ بھٹو صاحب نے عوام کو اُکسایا ، بھڑکایا توحق میں عوام سمندر کی مانند اُمڈ آئے ، جب سر کا تاج بنایا تو اُسے ہی بیوقوف بنانے میں اپنی حکومتی زندگی وقف رکھی ۔ انکساری اور عاجزی ترک کی ، رعونت اور دھوکہ دہی کو اوڑھنا بچھونا بنایا ، سینئر پارٹی رہنماؤں کی سرعام پٹائی ، آئین و قانون کی پامالی ، جمہوری اداروں اور اقدار کو روندا تو یقیناً کہ ’’جب یہ لاٹھی میری ہے تو بھینس کیوں تمہاری ہے‘‘۔ بھٹو صاحب طاقتوروں کا ترنوالہ بن گئے۔ جیسے ہی اقتدار سے علیحدہ ہوئے اور پھر جرأت کیساتھ پھانسی کا پھندا چوماتو لواحقین ومتبعین نے فراخدلی سے امریکہ کو موردِ الزام ٹھہرایا ۔ بینظیر صاحبہ جانشین بنیں تو والد کے بیانیہ اور تحریک کی امین و سرخیل ٹھہریں ۔ چند سال جرأت سے مقابلہ کیا ، پھر مخاصمت سے مفاہمت کا اس نفاست سے ادل بدل کیا کہ قیادت اور ورکرز کو کانوں کان خبر نہ ہو سکی ، پلک جھپکتے لندن پہنچ گئیں ۔ وہاں سے امریکہ پہنچیں اور امریکی نگرانی میں عسکری قیادت سے کامیاب مذاکرات کئے۔ 10 اپریل 1986 کو جیسے ہی لاہور قدم رنجہ فرمایا، لاکھوں کی ریلی کا آغاز ہوا ہی چاہتا تھا کہ ’امریکہ کا جو یار ہے ، غدار ہے غدار ہے ‘کا نعرہ لگانے سے منع فرمایا۔ یاد رہے ! 9 سال سے یہ نعرہ PPP کا اوڑھنا بچھونا تھا، یقیناً قریبی ساتھیوں اور ماننے چاہنے والوں کیلئے بھونچال سے کم نہ ہوگا ۔ 1988 میں والد کو پھانسی پر لٹکانے والوں کیساتھ مل کر حکومت بنائی تو بھی وجوہات پارٹی قیادت یا ورکرز سپورٹرز کے علم میں نہ لائی گئیں۔ اس مد میں نواز شریف صاحب نے بھی اپنے چاہنے والوں کومایوس نہ رکھا ،معاملہ سفر حجاز کاہو یا جنرل باجوہ اینڈ کمپنی کو لائف جیکٹ کی فراہمی یا دیگر درجنوں چھوٹے بڑے سمجھوتے ، مجال ہے ساتھیوں ووٹرز ،سپورٹرزکو بھنک لگنے دی ہو ۔
عقل اور دانش کو بیچ میں نہ لائیں تو جناب عمران خان ، بھٹو صاحب کی فوٹو کاپی ہیں ۔ دلیری ، جرأت ، مقتدرہ سے لڑائی میں ناکوں چنے چبوانے کیساتھ اپنے ماننے چاہنے والوں کو اپنی اصل حقیقت اور اندر خانے سوچ کی اہتمام سے کبھی ہوا نہ لگنے دی ۔ عمران خان نے اگرچہ اوائل جوانی میں ہی پلک جھپکتے بطور کرشماتی شخصیت اپنا لوہا منوا لیا مگر ایک عرصہ تک پارٹی چاہنے والوں کا فین کلب رہی ۔ پچھلے ساڑھے تین سال سے پہلی دفعہ بھرپور سیاسی مقبولیت سے تعارف ہوا۔ عمران خان سیاست کا 1996 سے 2014 تک کازمانہ نظر انداز کرتے ہیں ۔2014 دھرنا یا 2016 لاک ڈاؤن یا 2018 RTS الیکشن یا اپریل 2022 امریکی مراسلہ ( امریکی سازش ) ، چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانا ، 25 مئی 2022 کا اسلام آباد مارچ تا یکم نومبر 2022 جنرل عاصم منیر کیخلاف راولپنڈی یا ستمبر اکتوبر 2022 میں جنرل باجوہ کو دوسری توسیع ، اسکے علاوہ درجنوں چھوٹے بڑے سیاسی فیصلے ، مجال ہے کوئی ایک فیصلہ جسکی اصلیت قریب ترین ساتھیوں پر افشا ہونے دی ہو ، آج تک تہہ میں پہنچنے سے قاصر ہیں ۔
عمران خان نے اپنی شخصیت کو اُجاگر اور متعارف کروانے کیلئے اپنی سوانح حیات ضرور لکھی مگر احتیاط لازم کہ سیاست اور زندگی کے وہ پہلو جو شہرت اور عزت کو متاثر کریں ، قلم کی نوک پر نہیں آنے دیئے ۔ شرطیہ قسمیہ عرض کہ جب کبھی آئندہ بھی لکھیں گے ایسی حساس معلومات اپنے سینےمیں دفن ہی رکھیں گے ، ماننے چاہنے والوں کو تاریکی میں رکھنا پسندیدہ مشغلہ ہے ۔اگر کبھی کبھار متاثرہ سچ غلطی سے سامنے آبھی گیا تو عقیدت مندوں کے کان ، آنکھیں ، دماغ بند ، ماننے سے انکاری ہونگے ۔ عمران خان کا ایک اور باکمال وصف ،اگر کبھی کوئی خامی ، کمزوری یا شرمندگی عیاں بھی ہو جائے تو بجائے مدافعانہ وضاحت دینے کے ، جارحانہ انداز میں اسکو TALKING POINT بھی بناتے ہیں اور اکثرپوائنٹ اسکورنگ بھی حصہ بنتی ہے ۔ سیاستدانوں کی حد تک تو ماننے چاہنے والے انکا ایک اثاثہ ہیں ۔ ایسے مخلص ورکرز، سپورٹرز اپنے طور تن من دھن ، دامے درمے سخنے حاضر رہتے ہیں ۔ سمجھ سے بالاتر کہ لیڈراپنوں ہی کی آنکھوں میں دھول کیوں جھونکتے ہیں ؟
دوفریقوں کے درمیان اس وقت وطنی معرکہ حق و باطل دلچسپ صورتحال سے دوچار ہے ۔ ہر فریق اپنے آپکو حق کا داعی اور علمبردار جان چکا ہے جبکہ اپنے مخالف کو اللہ کی گرفت میںدے چکا ہے ۔ بوجوہ عمران خان کی جارحانہ سیاست PTI کے کئی بے گناہ ورکرز قید و بند اور صعوبتوں کی زد میں ، اس لڑائی کے یرغمالی ہیں ۔ جبکہ میرا بیٹا حسان خان معرکہ حق و باطل میں عمران خان سیاست کا COLLATERAL ہے ۔ ایک وقت تھا جب میرے جیسے لوگوں کیلئے عمران خان کا ساتھ نہ دینے پر طاقتوروں نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا ، قسمت کا پھیر، اب ساتھ دینے والوں کو رگڑا عین سعادت کا درجہ اختیار کر چکا ہے ۔ دونوں فریق اپنے اپنے مضبوط اعصاب اور جارحانہ موقف کے زُعم میں ہیں ۔ دوسرے کو پچھاڑنے اور حواس باختہ رکھنے کا عزم صمیم کیساتھ کہ حریف مخالف کی ہوا جلد نکلنے کو ہے ۔ پچھلے دنوں عمران خان کی جیل منتقلی اور جنرل فیض حمید کارڈ سامنے آنے کی خبریں فیڈ کی گئیں تو لگا کہ منطقی انجام کسی کی دہلیز پر آن پہنچا ہے ۔ آخری خبریں ! بظاہرلگتا ہے کہ چند ہفتوں کیلئے موخر ہو چکا ہے ۔ شاید عمران خان کو چند ہفتے مزید سوچ بچار کے مل گئے ہیں ۔ اللہ کرے عمران خان زمینی حقائق اور اپنی کمزوریوں ، خامیوں سے آنکھیں نہ چرائیں تو حکمت عملی بنانے میں اللہ کی مدد بھی شامل حال رہے گی جبکہ مستقبل بھی حادثے سے محفوظ رہے گا۔